خالد بلوچ کیلئے کون آواز اٹھائے
شاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان وہ واحد جگہ ہے، جہاں لوگ روز لاپتہ کیئے جاتے ہیں۔ سیاسی ورکرز سے زیادہ اُنکے راشتہ دار جبری گمشدگیوں سے نالاں ہیں۔ یہاں دیکھا نہیں جاتا کون کیا کررہا، کس پارٹی اور تنظیم سے تعلق رکھتا ہے، جب ریاستی اداروں کے ہاتھ لگ گیا وہ غائب کیا جاتا ہے۔ اُسے رہائی ملے یا نہیں مگر اسکے اہلخانہ اور احباب کو لاش گرنے کا زیادہ شبہ ہوتا ہے۔
یہاں سب سے بڑی بے چینی تو یہ تصور کی جاتی ہے کہ بلوچ پارٹی، تنظیم اور بلوچ ہیومن رائٹس کے علمبردار اب تک اس بات پر متفق نہیں ہو رہے ہیں کہ کتنے کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں۔ اسی نقطے پر جب میرا کسی بیان الاقومی ہیومن رائٹس گروپ کے ایک ممبر سے بات ہوئی تو بقول انکے وہ برطانیہ کے پارلیمانی لیڈرز سے قریبی تعلق رکھتے ہیں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں ان سے بحث کرتے رہتے ہیں اور کیسز انکے سپرد کرتے ہیں تاکہ وہ عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کریں اور خلاف بولنے کے مواقع پیدا کرسکیں۔ جب میرا ان سے خالد نوید کے بارے میں بات چیت ہوئی جو ایک لیکچرار ہیں لسبیلہ کالج میں، تو اس نے مجھے بلوچستان سے لاپتہ افراد کا لسٹ بھیجنے کو کہا۔ میں پریشان ہوا کس لسٹ کا اسے ریفرنس دوں، بیس ہزار لوگوں کا کہوں یا چالیس، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا ریفرنس دوں؟ بی۔این۔ایم، بی آر پی یا پھر بی۔ایس۔او کا؟ کچھ کہیں تو کہتے ہیں آپ تنقید کرتے ہو، خاموش رہیں تو ضمیر چین سے سونے نہیں دیتا۔ بہرحال بقول چیئرمین کمال کے شعور تنقید کی روح ہوتی ہے، جس کیلئے علم کا ہونا لازمی ہوتا ہے اور ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہ اب تک روایتی اصولوں سے آزاد نہیں، جسے ہماراہی سیاسی سنگت بزور قوت لبرل اور سیکولر بنانے کا جار لگاتے ہیں۔ شاید ہمیں علم نہیں اور تنقید کے طریقوں سے واقف نہیں ہیں، بس یونہی لکھتے ہیں تاکہ خود کو تسلی دے سکیں۔
پھر اُس نے کہا تھا کہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کے کیسز اسلیئے قبول نہیں کی جاتی ہیں کہ یورپ بنا ایف آئی آر، خاندانی ذرائع، ثبوتوں کے کبھی عمل نہیں کرتا، اُسکی اس بات پر مجھے باہر بیھٹے آزادی پسند دوستوں کا یاد آیا کہ کیا اب تک وہ اس قابل نہیں ہیں جو لاپتہ افراد کا کیس ایک مثبت اور جامع طریقے سے پیش کرسکیں۔
اسے میں ڈپلومیسی کا فقدان کا نام دوں یا پھر گروہوں میں بٹے آزادی پسند بلوچ ورکرز کا۔ نام جو بھی دی جائے اس بات سے ہم اخذ یہ کرسکتے ہیں کہ علاقائی اور بین الاقومی دونوں سطوحات پر ہم بُری طرح سے کمزور ہیں، ماضی کے غلطیوں سے کچھ سیکھے نہیں ہیں۔
خالد نوید بھی بلوچ ہیں، جو ہمارے معاشرہ کا حصہ ہیں، وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ قوم کے درخشاں مسقبل کیلئے برسرپیکار ایک استاد ہیں، جسے اپریل 2018 کو بیلہ سے ریاستی اداروں نے لاپتہ کرکے غائب کیاتھا۔ وہ اگر کسی پارٹی اور تنظیم کا حصہ نہیں تو اس کا قطعی مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم اس کیلئے آواز نا اٹھائیں۔ طلبہ تنظیموں کیلئے اس سے بڑھ کر اور کیا موقع ہونا چاہیئے کہ وہ ہر فورم پر یہ کہہ کر دنیا کو باور کرائیں کہ بلوچستان میں جب استاد لاپتہ کیئے جاتے ہیں، تو دیگر لوگوں کا کیا حال ہوگا۔ لیکن اُس کیلئے بھی ہم کچھ ٹویٹ کرکے اپنے اپکو تسلی دیتے ہیں کہ آج ہم نے فرض نبھا لیا۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے استاد کا مسئلہ صرف طلبہ تنظیموں سے نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں سے بھی ہے۔ کہاں ہیں غیر پارلیمانی اور پارلیمانی پارٹیاں جو خالد نوید جیسے کئی استادوں اور مکتبہ فکر کے لوگوں کیلئے پلے کارڈز اُٹھا کر کچھ کہیں، کوئی کچھ کہنے اور بولنے کو شاید تیار نہیں کیونکہ خالد نوید ایک نیوٹرل بلوچ ہیں۔ لیکن المیہ اس نہج تک پنچ چکی ہے کہ ہمیں پروپگنڈہ کرنا نہیں آتا اور ہم صرف اپنی پارٹی اور تنظیم سے غرض رکھتے ورنہ آج مجھے روز بلوچستان کے چپے چپے سے احتجاجوں کی گوُنج مزید لکھنے کو مجبور کرتا۔ ورنہ آج مجھے جنیوا، لندن، جرمنی سیمت بہت سے جگہوں میں خالد نوید کے حق میں لکھے احتجاجی رپورٹز بہت کچھ کرنے کو ساتھ دیتے۔
بلوچستان کے بنے ہوئے ٹیچرز ایسویشن کہاں ہیں؟ ان کا ہمیں کوئی گلہ ہونا نہیں چاہیئے کیونکہ وہ اپنے کسی دوست کی اغوانماگرفتاری پر جب بات کرینگے تو انکو بھی اسُی طرح کے اذیت سہنے ہونگے۔ لہٰذا چپ ہیں اور انتظار میں ہیں جب خالد نوید واپس آئیں تو اس کو خوش آمدید کہنے کیلئےایک اخباری بیان کافی ہے۔
خیر انکی بات کسی اور جگہ ہوگی۔ لیکن کہنے کو ایک اور بات رہ گئی ہے، کہاں گئی ہماری بہن سمی بلوچ، حمیدہ بلوچ، ماہ رنگ بلوچ اور باقی جن کے پیاروں کے رہائی کیلئے ہم نے سوشل میڈیا سے لیکر پریس کلبز کا دروازہ کھٹکٹایا، کمپئین چلائے اور چلاتے رہتے ہیں۔ اگر خالد نوید سمیت دیگر لاپتہ افراد کے بہن نہیں ہیں، تو کیا سمی بلوچ، حمیدہ بلوچ، ماہ رنگ سیمت باقی ہماری بہنیں، جنہوں نے جو درد محسوس کی تھی اور آج اپنوں کیلئے کررہے ہیں وہ کیا اِسی کفیت کو خالد نوید اور باقی لاپتہ افراد کے لواحقین کیلئے محوس نہیں کرتے؟ اگر ایسا ہے تو آج میں انکے ہاتھ میں سجے اُن پلے کارڈز اور انکے آواز کو بلند کرنے والے سیاسی ورکرز کو سلام کہہ کر خالد نوید سے معذرت کرنا چاہونگا۔