جستجو ءِ درد
تحریر: جلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
درد کیا ہے؟ درد کیسے دیا جاتا ہے؟ درد کیسے سہا جاتا ہے؟ کیا درد دینے والا درد سے واقف ہوتا ہے؟ کیا درد سہنے والا درد سے واقف ہوتا ہے؟ کسی کو درد دینے والا جان بوجھ کر کسی کو درد دیتا ہے؟ یا انجانے میں درد دیا جاتا ہے؟ سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہے کہ لفظ درد کیا ہے؟
درد ایک احساس ہے جو ہر ذی شعور انسان کے اندر ہوتا ہے، جسے با زور نہیں لایا جاسکتا ہے بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے، جو ایک تکلیف کی شکل میں ہوتا ہے۔ کسی عزیز اور درد خوارکے بچھڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔
جب کسی چیز یا مقصد کو شدت سے محسوس کرنے کا احساس ہو تو انسان اس احساس کو لیکر اپنے جان کو فنا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ کیوںکہ اس کے پاس ایک عظیم سوچ و مقصد ہوتا ہے اور اس کی شعور کی انتہاء اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کوئی بھی رکاوٹ اس کے سامنے پر نہیں مار سکتا۔
درد کی کھوج لگانے کی لگن میں اگر کوئی لگے، اگر اس تین ہندسوں کے اندر گھسنے کی کوشش کرے، تو یقینا وہ بہت زیادہ تڑپے گا کیوںکہ اس کی گہرائی سمندر سے کئی گنا زیادہ ہے، اس کی شدت جنگل میں بڑھکتے آگ سے کئی گنا زیادہ تپش زدہ ہے، جو شاید اس جستجو کرنے والے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
دنیا کے تمام دردوں سے زیادہ اذیت دینے والا درد میرے نظر سے الوداع کرنے کے وقت کا درد ہے، جو ایک قہر و عذاب برپا کرتا ہے، جو کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا ہے۔ ماں سے دور رہنے یا پھر بچھڑنے کا درد۔ باپ سے الوداع کرنے کے وقت سر پر بوسا لینا شاید میرے لئے دل چیر دینے والی کیفیت ہو۔ بہن کو یہ کہہ کر آخری بار گھر سے نکلنا کہ میرے لئے کسی کو رونے کی ضرورت نہیں میں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے جارہا ہوں۔
یہ سب درد کے حقیقی احساسات سے آشنا ہونے پر مجبور کردیتا ہے کہ درد کے اصل معنی و مفہوم کیا ہیں، عشق، محبت، پیار، دنیاوی زندگی، یہ سب فضول اور فانی بن جاتے ہیں جب آپ وطن کے درد کو محسوس کرلیتے ہو اس میں گل جاتے ہو۔ جب عشق وطن شدت پکڑ لیتا ہے تب عشق مجازی خود جھک کر اس مادر گلزمین کے سپوت کے سامنے سجدہ ریز ہوتی ہے۔
یہ سب چیزیں غالباً کچھ بیس دنوں سے کافی گہری نظر سے دیکھ کر محسوس کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ شاید درد اس سے زیادہ اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا کہ محسوس کرکے وطن کی خاطر جان نچھاور کرلیں، ایک درد کی شدت یہ بھی تھا کے ماں اپنے لخت جگر کو سینے سے لگا کر کہتا ہے میں نے تمہیں وطن کیلئے قربان کردیا، یہ وہ واقعہ ہے جس کو دیکھ کر یقیناً سرزمین بلوچستان بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ہوگا۔ یقیناً ہر ذی شعور انسان اس کیفیت کو پرکھنے کی کوشش میں افسردہ ہوگیا ہوگا۔
ویسے اگر دیکھا جائے کس لیئے قربانی دیا جارہا ہے؟ کیا مقصد ہے بذات خود مقصد کس طرح وجود رکھتا ہے، قربانی کیا بلا ہے۔ اور یہ وطن کیا چیز ہے جس کیلئے ہمیں اتنی بڑی قربانیاں دینی پڑ رہی ہے۔ اگر ہم دوسرے بے ضمیروں کی طرح سوچیں تو ہم بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کریں کہ بلی مجھے نہیں دیکھ رہا تو ضرور شکار کے زد میں آئیں گے۔
والد اپنے بیٹے کا نام فدائین برگیڈ لسٹ سے خود اولیت دینے کی تجویز دیتا ہے، کچھ اگر گمان میں لانے کی کوشش کریں کہ اس سلیکشن کے بعد اس والد پر کیا بیتا ہوگا ۔ رات کے ہر پہر جاگنے پر ریحان ایک شہید کے روپ دھار کر یاد آتا ہوگا، یقیناً گمان سے آگے کے تمام راستے بند ہوجاتے ہوں گے۔ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں، شاید ہی کوئی عظیم زانتکار ہی کچھ ایسا ہی کام سر انجام دے، یقین جانیں یہ ہم جیسوں کیلئے سرد اور لمبی راتوں کا ایک خواب ہے۔ شاید صبح ہوتے ہی خود کو کھوجنے کیلئے در بدر بٹکھنے کی کوشش کریں۔
شعور بھی کیا ظالم شہ ہے ایسے پیاروں کو فدا ہونے کیلئے بیدار کرتا ہے کہ ہم جیسے اس کے بارے میں خیال آتے ہی گہری نیند سے چونک کر اٹھ جاتے ہیں۔
ریحان جان کی شہادت نے صرف اور صرف بلوچ تحریک کو نہیں بلکہ دنیا عالم میں جتنے تحریک برسرپیکار ہیں، سب کو جنگی قوانیں کی تحت نئی روح بخشی ہے۔ بلوچ قوم کے ہر نوجوان،پیرمرد کماش،ماں،بہنیں شہید ریحان کی شہادت و دلیرانہ فیصلے کا سن کر جذبوں سے سرشار ہوئے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ تحریک کو بوسٹ اپ یا قوت بخشنا ہے تو ضرور مجید برگیڈ جیسے قربانیوں سے دریغ نا کریں ضرور کامیابی انکے قدم چومے گی۔