جبری گمشدگی کا عالمی دن – قمر بلوچ

630

جبری گمشدگی کا عالمی دن

تحریر : قمر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

الہامی قوانین، ریاستی قوانین ہوں یا سپرا نیشنل اداروں کے قوانین دنیا کے تمام قوانین انسان کو اپنی زندگی گزارنے کا آزادانہ حق تقویض کرتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی زندگی گزار سکیں، کسی بھی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے کسی دوسرے انسان کو جانی و مالی نقصان دیں یا انکو جبری گمشدہ کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنائے اور انکی مسخ شدہ لاش ویرانوں میں پھینک دیں لیکن جب دنیا میں انسانی جماعت نے ترقی کے منازل طے کرنے شروع کئے تو دنیا کے عیش و عشرت میں وہ انسانیت کو فراموش کرکے ایک وحشی درندہ بن گیا، جسے صرف اپنے مفاد عزیز تھے اور اپنے مفاد کے لئے وہ کسی کو بھی اغوا کرنے اس پر تشدد کرنے سے نہیں ہچکچایا بلکہ بلا خوف و خطر انسانیت کی تذلیل میں اپنا حصہ ڈالتا رہا۔ غاروں کی دنیا سے نکل کر جب انسان قبائل و قوم کی شکل میں منظم ہوا اور ترقی کرکے ریاستیں تشکیل دینے کے قابل ہوا تو اسکے ہوس کی رفتار بھی بڑھتی گئی اور اسکے مظالم کا شکار دوسرے اقوام کے افراد بھی ہونے لگے، نو آبادیاتی نظام کا آغاز ہوا اور اپنے قبضے کو طول دینے کی کوشش میں کروڑوں انسانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے بلکہ اس میں کئی گنا شدت پائی جاتی ہے۔ پہلے پہل جب لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے غائب کیا جاتا تھا تو ان پر تشدد کرکے انہیں رہا کردیا جاتا لیکن آج یہ صورتحال بھی مکمل تبدیل ہوگئی ہے، آج جب لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جاتا ہے تو انکی واپسی یا تو مسخ شدہ لاش کی صورت میں ہوتی ہیں، یا اجتماعی قبروں کی شکل میں صرف انکی ہڈیاں لواحقین کو مل جاتی ہیں۔

لوگوں کی جبری گمشدگی میں اضافہ بیسیویں صدی کے آخری عشرے میں دنیا کے سامنے آیا، جب لاطینی امریکائی ملکوں ارجنٹائن، میکسیکو، کوسٹاریکا کے فوجی آمریت میں ہزاروں افراد کو لاپتہ کرکے عقوبت خانوں کی نذر کردیا گیا اور ان پر تشدد کے پہاڑ توڑے گئے اور اسی دوران انسانیت سے محبت کرنے والے افراد کی ایک تنظیم جو خفیہ حراست کے خلاف کام کررہی تھی نے 1981 میں کوسٹاریکا میں لاپتہ افراد کا دن منا کر اس مسلئے کو اجاگر کیا اور اسی سلسلے کو اقوام متحدہ نے جاری رکھا اور آج دنیا بھر میں 30اگست ان لوگوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جو اپنے پیاروں سے دور عقوبت خانوں میں قیامت خیز تشدد کا سامنا کررہے ہیں۔

لاطینی امریکائی ممالک میں فوجی آمریت کے دور میں کئی لوگوں کو لاپتہ کیا گیا صرف ارجنٹائن میں تیس ہزار سے زائد افراد کو جبری لاپتہ کردیا گیا تاکہ انکے ایک آزاد سوشلسٹ ارجنٹائن کا خواب چکنا چور ہوجائے اور ان نوجوانوں کے نظریات زندانوں کے تشدد سے فنا ہوجائے ارجنٹائن میں نہ صرف 30,000 نوجوانوں کو اغوا کیا گیا بلکہ 500 کے قریب نومولود بچوں کو بھی ریاستی سرپرستی میں دیں کر انکی پرورش کی گئی تاکہ بالغ ہونے کے بعد ریاست کے ریموٹ بن جائیں اور اسکے علاوہ ان ماوں کو بھی نہ بخشا گیا جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے سڑکوں پر اپنے بچوں کی تصاویریں لئے اور سر پر سفید اسکارف جن پر بچوں کے نام کڑھائی کئے ہوئے ہوتے تھے اور ہر جمعرات کو پلازہ ڈی مایو میں جمع ہو کر اپنے بچوں کو یاد کرتی تھی۔ انہیں بھی ریاست کے اس عذاب سے گزار کر انکی مسخ شدہ لاش پھینکی گئی لیکن ان ماوں نے فوجی آمریت کے مظالم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہر مراعات کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ہم اپنے بیٹوں کی یاد کو انکے نظریات کو خون بہا کے رقم کے ساتھ آلودہ نہیں کرینگے۔ ارجنٹائنی ماوں نے اپنے بچوں کے خواب ایک آزاد سوشلسٹ ارجنٹائن کو زندہ رکھنے کے لئے آزاد یونیورسٹی ، کتابوں کی دکان ، لائبریری، ثقافتی مرکز قائم کرکے عوام اور طلبہ کو سہولتیں فراہم کیں۔

اسی طرح ایل سیلواڈور کے ماریہ ویکٹوریہ جن کے بچیوں کو فوج نے فسادات کے دوران لاپتہ کردیا، وہ پچیس سالوں سے اپنے بچوں کو تلاش کرتی رہی ملک کے ہر ادارے کا دروازہ کٹھکٹھایا لیکن سوائے مایوسی کے کچھ نہ ملا، میکسیکو میں بھی ریاست نے پچیس ہزار کے قریب لوگوں کو لاپتہ کیا، جن کا تاحال کوئی سراغ نہیں، میکسیکن مائیں بھی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے ہر سال سڑکوں پر نکل کر اپنے بچوں کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتی ہیں اور اپنے دکھ تکلیف کو دنیا کے سامنے اجاگر کرتی ہیں کہ اپنوں کے بغیر زندگی کسی قیامت سے کم نہیں اور انتظار ایک ایسا کرب ہے جو خدا کسی کو بھی اس ہزیمت سے نہ گزارے ان ماوں کی جدوجہد ایک زندہ مثال ہے، محبت کی دوستی کی نظریات سے محبت کی جو تا قیامت یونہی زندہ رہے گی۔

انیس سو اسی سے دنیا کے تقریباً اسی ممالک کے فورسز نے لوگوں کو جبری گمشدہ کیا اور ان پر تشدد کرکے لاشیں ویرانوں اور اجتماعی قبروں میں دفنا دی۔ انہی ملکوں میں ایک غیر فطری ملک پاکستان جس کا وجود ہی ایک جھوٹ ہے پہلے پہل بلوچوں کی سرزمین پر زبردستی قبضہ کرلیا اور جب اس قبضے کے خلاف مزاحمت ہوئی تو اس کو کچلنے کے لئے بلوچستان میں کشت و خون کا بازار گرم کردیا لوگوں کو تحریک سے دور کرانے کے لئے بلوچستان بھر میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کردیا گیا لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا جیسے جیسے تحریک شدت پکڑتی گئی پاکستانی مظالم اور لوگوں کو لاپتہ کرنے میں بھی تیزی پیدا ہوتی چلی گئی پہلے صرف سیاست و سیاسی تنظیموں کے لوگوں کو اغوا کیا جاتا رہا لیکن اب ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا صرف 2009 سے 2018 تک چالیس ہزار سے زائد افراد کو وحشی ریاست نے اپنی درندگی کا نشانہ بنا کر لاپتہ کردیا، جس سے لاطینی امریکائی ریاستوں میں ہونے والے مظالم کی یاد تازہ ہوگئی۔

بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے ہزاروں افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم تلے جدوجہد کررہی ہیں اپنے پیاروں کا درد لئے کبھی پریس کلبوں میں پریس کانفرنس کے ذریعے اور کبھی احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کی شکل میں اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے مسلئے کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں کمسن علی حیدر مہلب ، سمی ، فرزانہ مجید سیما اور دوسرے کئی لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے اس تحریک میں جدوجہد کررہی ہیں لیکن ظالم ریاست نے جبری گمشدہ افراد کو رہا کرنے کے بجائے اس میں مزید شدت پیدا کردی ہے۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے، جسے ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان اپنے طاقت کے نشے میں تمام قانونی حدوں کو پھلانگ کر بلوچ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور اپنے غیر انسانی اعمال کے ذریعے کمسن بچوں , نوجوانوں اور خواتین کو بھی اغوا و لاپتہ کررہا ہے اور پاکستان کے اس شر انگیزی سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے انصاف فراہم کرنے والے ادارے بھی سیکورٹی فورسز کے خوف سے اس مسلئے کو دبائے رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور حکومت کی جانب سے بنائی جانے والی لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ کا سابقہ و موجودہ بیان بھی ان سیکورٹی اداروں کو اس الزام سے بری الزمہ قرار دینا ہے ان کا موجودہ بیان تو سیکورٹی اداروں کے بیانیہ کی مکمل تشہیر ہے۔

ارجنٹائنی و میکسیکن ماوں کی طرح بلوچ مائیں بہنیں اپنے بچوں کی بازیابی کے لئے سراپا احتجاج ہیں انہوں نے انصاف کے لیئے تمام قانونی و جمہوری طریقوں کو اپنایا لیکن انصاف جو جی ایچ لیو کی باندی ہے ان سے دور رہا۔

لاپتہ افراد کا مسئلہ صرف بلوچستان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لئے صرف زبانی اقدامات کافی نہیں بلکہ بنا کسی بیرونی دباو کے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس انسانی مسلئے کو حل کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر حکمت عملی وضع کرنی ہوگی تاکہ انسانیت کو شرمسار ہونے سے بچایا جاسکے اور بلوچ سیاسی جہد کاروں کو چاہئیے کہ وہ اپنے اندر اتحاد و یکجہتی قائم رکھ کر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں اور اس اہم انسانی مسلئے کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کے لئے بہترین حکمت عملی ترتیب دیکر عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو مجبور کریں کہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے ریاست پاکستان پر دباو ڈالیں،بلوچ عوام جنکی جدوجہد کے بغیر یہ تحریک کامیابی کے منازل طے نہیں کرسکتی اپنے سیاسی تنظیموں کے ہم آواز بن کر اس اہم انسانی مسلئے کو اجاگر کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں کیونکہ ان تنظیموں کی کامیابی کا دارومدار عوامی حمایت ہے۔