امریکہ نے چینی اشیا پر 200 ارب ڈالر مالیت کے نئے محصولات نافذ کر دیے ہیں۔ یہ نئے ٹیکس 5000 سے زیادہ اشیا پر نافذ کیے گئے ہیں جو اب تک لگائے جانے والی سب سے بڑی محصولات ہیں۔
اس میں ہینڈ بیگ، چاول اور ٹیکسٹائل جیسی مصنوعات شامل ہوں گی۔
خیال رہے کہ امریکہ اس سے قبل چین سے درآمد کی جانے والی سینکڑوں اشیا پر پہلے ہی 50 ارب ڈالر کا محصول یا ٹیرف عائد کر چکا ہے۔
اس سے پہلے چین نے کہا تھا کہ چین اپنے مفادات کے دفاع کے لیے ‘کوئی بھی قیمت چکانے سے نہیں ہچکچائے گا۔’
یہ نئے ٹیکس 24 ستمبر سے لاگو ہوں گے۔ اگلے برس یہ دس فیصد سے شروع ہو کر 25 فیصد تک پہنچ جائیں گے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ چین کی ناانصافی پر مبنی تجارتی طریقوں کا جواب ہے۔
‘ہم اس بارے میں بہت واضح رہے ہیں کہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اور ہم نے چین اسے ٹھیک ہونے کے لیے ہر موقع دیا ہے۔ لیکن اب تک چین اپنے طریقہ کار کو بدلنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔’
صدر ٹرمپ نے یہ بھی تنبیہ کی کہ اگر چین نے اس پر مزاحمت کی تو امریکہ فوری طور پر فیز تھری پر عمل کرے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 267 ارب ڈالر کی چینی اشیا پر مزید ٹیکس لگا دے گا۔
اور اگر ایسا ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ چین کی امریکہ کو جانے والی تمام تجارت پر نئی ڈیوٹی لگ جائے گی۔
رواں برس کے دوران چینی مصنوعات پر تیسرا ٹیرف ہے۔
جولائی میں وائٹ ہاؤس نے 34 ارب امریکی ڈالر کی چینی اشیا کے چارجز میں اضافہ کیا تھا۔
گذشتہ ماہ کے دوران امریکہ نے دوسرے مرحلے میں16 ارب کی اشیا پر 25 فیصد ٹیکس نافذ کیا تھا۔
تاہم یہ حالیہ ٹیرف میں سب سے زیادہ ہے۔ گذشتہ بار کے برعکس اس بار صارفین کی عام استعمال کی اشیا کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سامان اور فرنیچر شامل ہے۔
امریکی کمپنیاں پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ انھیں پریشانی ہے کہ ان اقدامات کا ان کے کاروبار پر اثر پڑے گا۔
اگرچہ معاشی ماہرین کا عام اندازہ ہے کہ ٹیرف کے اثرات کا تناسب بہت کم ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ابھی اس حوالے سے کوئی پیش گوئی کرنا قبل ازوقت ہو گا۔
کن اشیا کو نشانہ بنایا گیا ہے؟
اس میں چھ ہزار سے زیادہ اشیا شامل ہیں۔ تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے 300 اقسام کی اشیا کو نکال دیا ہے۔
ان میں ہائی پروفائل اشیا ہیں جیسے سمارٹ گھڑیاں، سائیکل، ہیلمنٹ، پلے پین اور بی بی کیئر سیٹ وغیرہ۔ شامل ہیں۔
یہ تبدیلیاں مختلف کمپنیوں کی جانب سے شدید مخالفت کے بعد سامنے آئی ہیں۔ ان میں ایپل، ڈیل اور ہیولٹ پیکارڈ شامل ہیں۔
ان کمپنیوں نے یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ ٹیرف بڑھنے سے ان کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ ان کی بہت سے پروڈکٹس تو چین میں ہی بنتی ہیں۔
امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے کہا تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے چین کے لیے نئے ٹیرف سے انھیں محفوظ رکھا جائے۔