بی این ایم کیوں قومی پارٹی نہیں بن سکتا؟
تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب بھی قابض ریاست نے جہاں جہاں نو آبادیاتی کالونی قائم کیا، وہاں بسم اللہ ہی لوگوں کے دلوں میں اس چیز سے کیا کہ میں ہی داتا، میں ہی لاثانی، میں ہی ہرچیز، میرے بعد تمام حقیر، نیچے، پست ٹہر جاتے ہیں۔ یہ کہنے بعد یہی سوچ پھر ہر فرد کے دل میں راج کرنے لگتاہے۔ کچھ لوگ جلدی چھٹکارا پاتے ہیں اور بعض اس دلدل میں گردن تک دھنس جاتے ہیں۔ مگر انکی اکڑ آخری دم تک نہیں جاتی وہ اس کو مختلف نام دیدیتے ہیں۔ جی میں خاندانی ہوں، فلاں کمینہ، میں آباؤ اجداد سے اس علاقے، افراد یا شہر محلہ کا مالک، کرتا دھرتا چلاآرہاہوں، فلاں رعایا ہے۔ اس طرح ہر چیز پر اپنا حق جتا کر موروثی بن کر اژدھے کی طرح بیٹھ جاتاہے۔ یہی سلسلہ خاندان، گروہ در گروہ رواج پاکر وسعت اختیار کرکے خود پائدار جڑیں نہیں پکڑ سکتا مگر دوسرے پر چمٹ کر گروتھ پاتا ہے۔
جہاں نظریہ، فکر اپنے حقیقی روپ میں آجاتا ہے تو یہ تمام باتیں غیر منطقی ٹہر جاتے ہیں لیکن جہاں سماج، علمی، فکری حوالے سے پست ہو، ان چیزوں کو روندنا انتہائی مشکل کہہ سکتے ہیں مگر ناممکن نہیں ہوتیں۔ اس کے لئے الگ یوگا کرنا پڑتا ہے۔ اس چیز کی مزید گہرائی میں جانے کے بعد صاف دیکھا جاسکتاہے کہ یہ اجارہ داری ترقی پسند پارٹیوں کی خمیرمیں سوفیصد موجود ہے، مگر جب یہ سوچ ایک انقلابی اور آزادی پسند پارٹی تنظیم یا فرد اور اختیار دار میں نمودار ہوں تو خطرے کی گھنٹی سمجھا جاناچاہیئے کیونکہ یہ آگے جاکر انتہائی تکلیف اور شاک کا باعث بن جاتے ہیں۔
قطع نظر مندرج بالاباتوں کے آج کل جو چیخ و پکار سنجیدہ دانشور طبقے میں ہے اس بابت ہمیں سر جوڑ کر سوچنا ہوگا کہ کہا جاتا ہے کہ بلوچ جہد کو آگے بڑھانے اور مسلح تنظیموں کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک طاقتور سیاسی تنظیم کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان تمام کو کنٹرول کرسکے، اسی رائے کو لیکر جب کسی سیاسی ورکر یا جہد کار سے بات کی جائے کہ کیا اس کیلئے بلوچ نیشنل موومنٹ موزوں نہیں ہے؟ تو قہقہہ لگایا جاتاہے کہ جی بی این ایم ایک سرکل کی پارٹی ہے، یہ سننے کے بعد ذہن میں دو سوالات جنم لیتے ہیں، پہلا وہی کہ جو قابض، نیو کالونی میں تبدیل کرنے پر رویہ اپنایا تھا، وہ ذہنی کیڑے کروٹ بدل کر نمودار ہوگئے ہیں کیا؟ دوسری طرف پھر ذہن میں آجاتا ہے کہ سرکل واقعتاً ہے بھی یا بس اسکا واویلا ہے۔ اس بات اور پوائنٹ پر بی این ایم کے اختیار دار اور ورکر کو سوچنا چاہئے، تاہم پہلے حصے کو ہم کھنگالنے کی کوشش کرکے اس کے بیک گراونڈ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بعض شواہد سمیت اس چیز کا پتہ چل جاتا ہے کہ ہاں آج کے بی این ایم میں اس اشرافیہ کی کمی شدت سے ہے جو اپنے بالادستی کا دعویدار ہے، اسکے علاوہ اگر ہم بی این ایم کے منشور، آئین، پروگرام اور عمل کے تعلق کو دیکھیں تو مئی ۲۰۰۴ء سے آج تک اس اسٹینڈ پر کھڑا ہے کہ ہم حق خود ارادیت بشمولِ حق علیحدگی چاہتے ہیں۔ اس بات پر اپنے پہلے صدر یا چیئر مین ،غلام محمد اور سیکٹری جنرل ڈاکٹر عبدالمنان سمیت اہم رہنماوں سمیت کارکنوں کے بے بہا قربانی دیکر بھی اس بات سے کم پر آیا اور نہ آئندہ یہ توقع ہے کہ وہ اس میں تبدیلی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح کوئی انگلی اٹھا نہیں سکتا کہ بی این ایم نے اپنے آئین اور منشور سے ہٹ کر اس چیز کو روند ڈالا، جس سے اجتماعیت کو زک پہنچا۔ ہاں انفرادی کردار ہوسکتے ہیں،جو اپنی کم علمی یا نظریے کی کمی سبب ایسا ممکن ہے، سوچ رکھتے ہوں یا اس مرحلے سے گذر چکے ہوں، یہ ممکنات میں سے ہے اور اس کا ہروقت استقبال کیلئے اپنے آپ کو ذہنی تیار رکھا جائے یا کیا جائے۔ وہ کسی بھی وقت بن بلائے مہمان کی طرح دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ تاہم چند لمحہ بعد الوداع کہہ کر چلاجائے گا پھر وہی زندگی لوٹ آئے گا جو چند دن یا کھنٹے پہلے تھا۔ اس کے علاوہ آپ اس کردار کو ریپلیس کرسکتے ہیں اور ریپلیس کا عمل ہونا چاہیئے، اگر اس کی کمی ہوئی تو یقیناً ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک سرکل کی پارٹی ہے، ہم اس بات کو لیکر اس گتھی کو سلجھا سکتے ہیں اور یہ ممکنات میں سے ہے۔
آج بلوچ جہد اس اسٹیج پر ہے کہ اس میں گروہیت اگر ہے، تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیئے اگر نہیں ہے تو ہم ہرایک بطور سیاسی کارکن، سماجی، سوشل ورکرز، سیاسی پارٹی یا تنظیم حتیٰ کہ مسلح تنظیموں کو اس عمل کے خاتمہ کیلئے اپنے قومی ذمہ داری کو یقینی بنانے کیلئے اس کو روکنا ہوگا تاکہ یہ آگے گروتھ کرنے نہ پائے، اس سوچ کو آج جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کا عملاً مظاہرہ کرنا ہوگا یعنی ہم پر یہ لازم ہوگا کہ ہم اپنے فرض منصبی کو بروئے کار لانے اور قومی ضرورت کو پوراکرنے کی خاطر بی این ایم میں نہ صرف اپنے رائے دیں بلکہ انفرادی طور پر شامل ہوکر اس کا بیڑھ پار کریں۔ اگر بادل نخواستہ کوئی انفرادی منفی رویہ اپناتا ہے، تو پارٹی کو اختیار ہے کہ وہ اس کو رام اور لگام دے سکے۔ تاہم ہم نہیں سمجھتے کہ ایسے کردار ہونگے یا وجود رکھتے ہیں۔ اس عمل اور انفرادی شراکت داری سے ہم قوم کو ایک مشترکہ قومی پارٹی دینے میں بھرپور کردار اور حصہ ڈال سکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ اس شراکت داری کا حشر اس بادشاہ کے ٹینکی کا نہ ہوکہ ہر کوئی سمجھے میرے ایک کٹورے پانی سے دودھ پر فرق نہیں پڑے گا۔
اگر ہم غیر جانبدارانہ اپنے بلوچ معاشرے پر نظر دوڑائیں تو زندگی کی ہر شعبے سے ہم بی این ایم کے لئے ہیرے چن سکتے ہیں۔ اب عام بلوچ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منجھدہار کشتی کو کس طرح پار لگا دیتے ہیں۔ اس سوچ سے نکل کر کہ ہرو برے نواب صاحب،سڑدار یا فلان خواجہ انت پائک دہن مف فلان خواجہ غاتا است کبین مروئے؟
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔