بیوروکریٹک سوچ
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
تحاریک کی تاریخی دریچوں میں ہمیں ایک نہیں بلکہ سینکڑوں مختلف ادوار میں مختلف تحاریک اور پارٹیوں میں مختلف اقسام کی بیوروکریٹک سوچ اور موقع پرستی کی مثالیں ملتی ہیں، خصوصاً روس کے بالشیوک پارٹی میں ایک بیورو کریٹک سوچ اور موقع پرستی کی رجحان نے ایک دفعہ مکمل پارٹی کو اپنے گرفت میں لیکر پارٹی اور انقلاب کو فنا کی دھانے پر پہنچا دیا تھا لیکن پارٹی کے قائدین میں سے جوزف اسٹالن نے ہر وقت پارٹی اور انقلاب میں ایسی سوچ اور موقع پرست عناصر کا قلع قمع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ پارٹی اور انقلاب کی ترقی میں اس قسم کی رکاوٹ دور ہو، وگرنہ پارٹی اور انقلاب کا مقدر فنا ٹہرتا۔
بقول اسٹالن “ہماری پارٹی، انقلابی لڑائی کے طوفان میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی یہ ایسی پارٹی نہیں جو پرامن ترقی کے دور میں جوان ہوئی اسی وجہ سے یہ انقلابی روایات سے مالامال ہے اور اپنے بے شمار رہنماوں کو طلسماتی چیزیں بناکر ان کی پرستش نہیں کرتی ایک زمانے میں پلیخانوف پارٹی میں سب سے مشہور شخص تھا، اس سے بھی بڑھ کر وہ پارٹی کا بانی تھا تاہم اس کے باوجود جونہی پلیخانوف نے مارکسزم سے انحراف کیا اور موقعی پرستی کا مرتکب ہوا تو یہ ہمارے لیے تعجب کی بات نہیں ہوا تو ٹراسکی اور زینوویو سے پلیخانوف کی شہرت ناقابل حد سے زیادہ تھی اور یہ لوگ جو اس قدر عظیم نہیں ہیں کہ وہ مارکسزم سے انحراف اور موقع پرستی کا شکار نہ ہوں۔”
بی ایس او بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قومی سیاست میں ایک فعال جز کی حیثیت سے بلوچ قومی تاریخ کا ضروری حصہ ہے لیکن ضیاء آمریت کا خاتمہ اور بی ایس او کا پاکستانی پارلیمانی سیاست میں 80 کی دہائی میں حصہ داری کی پاداش میں بی ایس او میں بیوروکریٹک سوچ اور موقع پرستی کی رجحان پروان چڑھا تو آخر کار بی ایس او کا مقدر فنا کی طرف محو سفر ہوا، اس کے بعد 2002 میں قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اور اس کے چند نظریاتی دوستوں کی ٹیم ورک نے بی ایس او کی بنیاد دوبارہ نظریاتی بنیادوں پر رکھ کر ایک بار پھر قومی تحریک میں بی ایس او کے ایک فعال کردار کی بنیاد رکھی۔”
اس سے پہلے بی ایس او کی قیادت سے لیکر کارکنوں تک شعوری، علمی و عملی، نظریاتی و فکری سیاست اور سرگرمیوں سے بیگانہ ہوکر صرف اور صرف پارلیمانی رہنماؤں، شخصیتوں اور سرداروں کا دم چلہ بن کر دن رات ان کے صفت و ثناء، چاپلوسی، بھتہ خوری، چندہ خوری، ٹھیکیداری، بلیک میلنگ، کرپشن، سستی شہرت، ہاسٹل کمروں کی سیاست، کاٹن کلچر،عہدہ پرستی اور معتبری کا شکار ہوئے تھے۔
بی ایس او آزاد کے دوستوں نے بڑی حدتک ذہنی و فکری اور علمی تربیت کی بنیاد پر ایسے منفی رجحانات کی بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کرتے رہے اور بلوچ نوجوانوں میں خالص انقلابی رجحانات اور روایات کو پروان چڑھایا۔
کیا آج بھی بلوچ قومی تحریک آزادی کی جنگ اپنی منزل کی طرف روان دواں ہے؟ ایک طرف میری بہن گودی یاسمین اپنے جوانسال لخت جگر، اپنے بیٹے ریحان جان کو قومی بیرک میں لپیٹ کر وطن کے لیئے قربان کرنے کے لیئے روانہ کرتا ہے، دوسری طرف ایسے جہدکار بھی ہیں جو فکری اور انقلابی دعویدار ہوکر صبح و شام اپنی ذاتی سوچ اور ذاتی خواہشات کا غلام بن کر بیوروکریٹک سوچ اور موقع پرستی کا شکار ہیں۔
کیا ہم نے اس وقت یہ عہدو قسم کرکے قومی آزادی کی پرکھٹن راہ میں قدم نہیں رکھا تھا اور یہ نہیں سوچا تھا کہ بلوچ قوم، بلوچ قومی تحریک اور شہداء کی مقدس لہو کے خاطر ہماری جان و مال، خاندان، ننگ و ناموس، آرام و سکون اور ذات سب کچھ قربان ہیں؟ لیکن دوسری طرف صبح و شام اپنی ذاتی خواہشات، ذاتی سکون و آرام، رتبہ و مقام کی چکروں میں نہیں ہیں؟ کیا یہ عمل خود ہمارے بیوروکریٹک سوچ اور موقع پرست رویوں کی عکاسی اور قومی فکر کی کمزوری کے ساتھ ہمارے قول و فعل میں تضاد کی علامت نہیں ہے؟
کیا آج بلوچ قومی تحریک میں وقت و حالات، زمان و مکان کے مختلف ہونے کے ساتھ ہمارے اندر مختلف شکل و صورت میں ہاسٹل کمرہ، ٹھیکیداری، بھتہ خوری، کرپشن، مراعات پسندی، کاٹن کلچر والی سیاست کسی نہ کسی طرح بیوروکریٹک سوچ کے رنگ میں جڑیں جماتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے؟
کیا آج دشمن کے تمام بلوچ دشمن منصوبوں، پالیسیوں، سازشوں اور جارحیت کو بھول کر صرف اور صرف اپنی ذاتی، زندگی کے خواہشات کو پابندِ سلاسل ہوکر ہم ایک قومی المیے کا شکار ہوتے ہوئے نظر نہیں ارہے ہیں؟
کیا ہم ایسی بیوروکرٹیک سوچ یعنی معمولی سے معمولی مراعات، سکون و آسائش، سطحی، بچگانہ، گند آلود، غیرسنجیدہ اور موقع پرستانہ سوچوں میں غرق ہوکر پھر بھی ہم پاکستان جیسے غیر مہذب و وحشی جابر طاقت کے ساتھ چین جیسے سپر پاور سامراجی طاقت جیسے ملک سمیت دیگر بلوچ قوم کی استحصالی قوتوں کو بلوچ سرزمین پر شکست دیکر بلوچ قوم کی بقاء اور تشخص کو برقرار رکھ سکتے ہیں؟ یا اپنی شہداء کی مقدس لہو کی لاج رکھ کر دشمن سے ان کی لہو کا بدلہ آزاد بلوچستان کی صورت اپنی آغوش میں لے سکتے ہیں؟
ایک اور تلخ سوال، وہ معصوم بچے جن کا باپ شہید یا لاپتہ ہیں، وہ بیوہ بہن جن کے شوہر شہید یا لاپتہ ہیں، وہ بہن جن کے شہزادے بھائی شہید یا لاپتہ ہیں، وہ ماں وہ باپ جس کا لخت جگر شہید یا لاپتہ ہے، وہ ہم سے کیا امید اور توقع لیکر بیٹھے ہوئے انتظار میں ہیں؟ اور ہم ان کی تمام امیدوں، توقعات، درد، کرب، احساسات اور جذبات کو لیکر آج کیا کررہے ہیں؟ کیا سوچ رہے ہیں؟ ہماری سوچ، ہماری ترجیحات، ہمارا بحث و مباحثہ، ہماری ضرویات، ہمارے تقاضات، ہمارے خواہشات، ہماری حکمت عملیاں اور ہماری پالیسیوں کی سوئی اس وقت کہاں پراٹکی ہوئی ہے؟
انفرادی و ذاتی احساس سے بالاتر اجتماعی و قومی احساس کیا ہے؟ کب اور کہاں کس وقت پیدا ہوتا ہے؟ اس کے واضح علامات کیا ہیں؟ اور کیوں اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اتنے طویل اور بے شمار بلوچ بزرگوں، نوجوانوں، دوستوں، معصوم بچوں اور بلوچ خواتین کی شہادت اور گرفتاریوں اغوا کاریوں کے ساتھ اگر جوانسال لیجنڈ ریحان جان اور اس کی ماں گودی یاسمین کے عظیم فیصلے اور قربانی کے بعد کسی میں بھی اجتماعی و قومی احساس پیدا نہیں ہوا تو کم از کم میرے نزدیک اس کے بعد کسی سے بھی قومی احساس، قومی فکر، قومی جذبے اور مخلصی کی توقع کرنا خیام خیالی اور غلط فہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں بلکہ اپنے آپ کو دھوکا دینے اور بے وقوف بنانے کے مترادف ہوگی۔
یاد رکھا جائے بیوروکریٹک سوچ اور موقع پرستانہ سوچ اور رویئے ہمیشہ فکری و علمی کمزوری اور محکوم شعور کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور پھر بیوروکریٹک اور موقع پرست سوچ کے حامل افراد میں کام کی ذمہ داری توجہ دلچسپی اور قربانی کا جذبہ مکمل ختم ہوگا، وہ تحریک کے ساتھ ظاہری طور وابستہ ہوتے ہوئے، قومی و اجتماعی احساسات و جذبات سے بیگانہ ہوکر صرف اور صرف اپنی ذاتی خواہشات، احساسات، جذبات، تصورات، آسائش و آرام اور سکون کا غلام ہوکر خاموش طرز راہ فرایت اختیار کرتے ہیں، جو ذہنی طور پر شکست خوردگی کی علامت ہوتی ہے۔
انقلابی پارٹی میں ایک ہی ساتھ ایک ہی وقت میں دو مختلف سوچ یعنی انقلابی سوچ اور بیوروکریٹک اور موقع پرستانہ سوچ کبھی بھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں، پھر بھی اگر چلانے کی کوشش ہوگی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے، ایک تو جتنے بھی نئے پرعزم نوجوان خلوص اور ایمانداری کے ساتھ اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر پارٹی میں شامل ہونگے وہ نوجوان یا تو خود بیوروکریٹک اور موقع پرستانہ سوچ اختیار کرلینگے یا پھر ان کے جذبات توقعات اور احساسات کے برعکس وہ پارٹی سے بدظن، بددل اور مایوس ہوکر کنارہ کش ہونگے دونوں صوروتوں میں پارٹی اور تحریک کے لیے نقصان اور خطرہ ہوگا اور یہ نقصان اور خطرہ دشمن سے بھی زیادہ نقصاندہ اور خطرناک ہوگا۔
لہٰذا وہ پارٹی اور وہ تحریک اس وقت سوفیصد کامیاب ہوگا، اس کے انقلابی قیادت اور انقلابی کارکن پارٹی کے اندر بیوروکریٹک اور موقع پرستانہ سوچ کی مکمل حوصلہ شکنی بیخ کنی اور خاتمہ کرکے ایسے عناصر کو پارٹی سے مکمل خارج کردیں اور ایسے انقلابی اقدام اور فیصلوں کی اب ضرورت ہے، نہیں تو خدا ناکرے چند سالوں میں پورا قومی تحریک بیوروکریٹک اور موقع پرستانہ سوچ کے بھینٹ چڑھ نہ جائے۔
جو بھی پارٹی اس وقت بیوروکریٹک اور موقع پرستانہ سوچوں کو سمجھ کر ان کا ادراک کرکے ان کاخاتمہ کردیگا، مستقبل میں وہی پارٹی وہی قیادت کامیاب و کامران ہوکر آئندہ سب سے اعلیٰ، سب سے منفرد اور متاثر کن ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔