بلوچ ساحل تحریک کے آئینے میں – سنگت میر بلوچ

425

بلوچ ساحل تحریک کے آئینے میں

تحریر : سنگت میر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

کرہ ارض ہر طرح کی سمندری و بری حیات سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے ہاں بلوچستان کے مختلف ساحلی علاقوں سے سمندر لگتے ہوئے، ساحل گوادر سے پسنی اورماڑہ پھر کراچی تک جاتی ہے۔ بلوچستان کے علاقے پسنی کا سمندر کافی مشہور ہے، اس ساحلِ سمندر پر بہت سے بلوچ اپن زندگیاں گذار رہے ہیں اور اسی سمندر سے لوگ گذر بسر کیلئے اکثر مچھلیوں کا شکار کرکے بیچ دیتے ہیں اور اپنا کاروبار زندگی اسی سمندر کے بدولت چلارہے ہیں۔

مگر ایک طرف پاکستانی سامراجیت، جبرو ظلم ہم پر مسلط ہے اور دوسری طرف بلوچوں کی معاشی نسل کشی کیلئے ٹرالر مافیا ہمارے سمندری وسائل کے ٹرالنگ میں بدستور مشغول ہے۔ اسکے علاوہ پسنی میں آئی ایس آئی، آئی ایم آئی اور پاکستانی فوج نےبلوچ نسل کشی کیلئے ایک نیا طریقہ اپنا کر بلوچ نوجوانون کو منشیات کی طرف دھکیل دیا ہے کیونکہ جتنے بھی منشیات فروش ہیں، سب کے سب آئی ایس آئی اور ایم آئی اور فوج کیلئے کام کررہے ہیں اور ان منشیات فروشوں کو پاکستانی فوج خود سیکورٹی دے رہی ہے تاکہ بلوچ کی آنے والے نسل تباہی کی طرح چلی جائے اور بلوچوں کی تحریک دم توڑ دے اور نوجوان منشیات کے چنگل میں جکڑے رہیں۔ اس وقت لگ بھگ %70 یا %80 بلوچ نوجوان اس منشیات کے لعنت میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اگر اس کی روک تھام کیلئے بلوچ قوم دوست لوگوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا، تو پسنی تباہی کی طرف گامزن ہوگی۔

اسی روٹ سے پاکستان اکنامک کوریڈور بھی گذرتی ہے اور CEPEc کی وجہ سے ہمارے وسائل بھی پاکستان افواج چین کے ذریعے لوٹ رہا ہے اور پسنی میں بھی پاکستان کی دو بڑے نیول بیس موجود ہیں۔ انہوں نے ہر ایک کو اپنی حالت پر چھوڑا ہوا ہے، جو بھی ٹرالر مافیا کا دل چاہے وہی کریں۔

بلوچستان کے چھوٹے سے ساحلی شہر پسنی نے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے مایہ ناز شخصیات پیدا کیں ہے، اگر پسنی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں آپکو فلسفہ نگار، قلم کار، لکهاری، قصہ نویس، اداکار، پینٹرز اور بہت سے ایسے لوگ ملتے هیں شاید دوسرے ممالک میں ان جیسے لوگوں کی قدر هیرے کی طرح ہوتی لیکن بدبختی سے هم ایک ایسے ریاست کے غلام ہیں، جہاں انسان کی کوئی اهمیت ہی نہیں۔ اگر پسنی کے ماضی میں جائیں تو ہمیں بہت سے ایسے قومی ہیرو ملتے ہیں جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کیلئے قربان کردیا۔ ان عظیم شخصیتوں میں ایک پیر مرد واجہ نصیر کمالان ہیں، جس نے پیران سالی میں صرف خود نہیں بلکہ اپنے نوجوان بیٹے شہید سمیر جان کو بهی بلوچ سرمین کیلئے قربان کردیا اور ڈاکٹر قمبر قاضی جیسے جوان لیڈر نے اپنے سارے خواہشات ہمارے مستقبل کیلئے قربان کردیا اور شہید حنیف گاجیان نے اپنا تعلیم، اپنا روزگار اور اپنی سارے عیش وعشرت کو چهوڑ کر قوم کی آنے والی نسل کیلئے گیاره مہینوں تک ریاست کی ٹاچر سیلوں میں گذارا اور آخری دم تک بلوجستان کا نعره لگا کر زندان میں جام شہادت نوش کر لیا۔

ماضی میں یہاں کا جائزه لیا جائے تو آپکو مزید عظیم قومی ہیرو ملتے ہیں، شہید صدیق عیدو، شہید یوسف نذر، شہید عابد صوالی، شہید خالد کلانچی، یوسف یونس، شہید شاکر عیدو، شہید ماسٹر مجید ، شہید ساجد کریم بکش، صابر احمد اور شہید میاں داد پسند جیسے عاشق ِ وطن ہمیں ملتے ہیں۔ یہ وه لوگ تهے جنهیں اپنے وطن سے بے حد محبت تها، ہم بلوچ اپنے پیارے شہیدوں کو کبهی بهول نہیں سکتے ہیں۔ جس وقت قمبر جیسے نڈر بہادر کمانڈر پسنی میں موجود تهے تو پاکستانی فوج اپنے کیمپ سے نکلنے میں بھی ڈر محسوس کرتے تھے لیکن ریاست نے انہیں بلوچ مخبروں کی زیعے شہید کروایا، آخر ایک بلوچ فرند کو بلوچ کی ہاتھوں شہید کروایا لیکن شہیدوں کا خون رائگاں نہیں ہونگے، شہیدوں کا فکر زنده ہے اورہمیشہ زنده رہے گا۔
.
میں اپنے تمام آزادی پسند جہدکاروں سے پُرزور اپیل کرتا ہوں کہ اس علاقے میں منشیات کے روک تھام کیلئے اچھی حکمت عملی تیار کر کے منشیات فروشوں کے خلاف ایک نیا کریک ڈاؤن شروع کریں، ورنہ تباہی صرف پسنی کا نہیں سب بلوچوں کی ہے۔