بلوچستان ۔ کمبر بلوچ

330

بلوچستان

تحریر۔ کمبر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں جسکو اپنے وطن سے پیار نہیں، اُس کو زندہ رہنے کا بالکل حق نہیں ہے۔ جِن علاقوں سے ہم تعلق رکھتے ہیں ،وہاں کے زیادہ تر لوگ زمینداری کرکے اپنا گذر بسر کرتے ہیں۔ مفلسی اور لاچارگی اپنی آب وتاب میں مگن ہے، حالات اِس حد تک بدتر ہیں کہ غربت کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلا نہیں سکتے، اُنکے بنیادی ضروریات تک پورا کرنے سے قاصر ہیں لیکن دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو جسطرح کی تعلیم اور سہولیات پنجاب کے بچوں کو دیا جاتا ہے وہ ہمارے تعلیم سے کئی گنا بہتر ہے۔

اِن سب کہ باوجود کہ ہمارے یہاں فقدان ہے تعلیم کی، سہولیات اور بہت سے چیزوں کی جو پنجابیوں کو وافر مقدار میں میسر ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنے عورتوں کی عزت اَن سے زیادہ کرنا جانتے ہیں، معاشرتی اقدار کی بہتر پاسبانی کرنا جانتے ہیں، اپنے وطن کی خاطر جان دینا جانتے ہیں۔

پنجابی ہمیں تو جاہل سمجھتے ہیں۔ اُن کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیئے کہ پنجاب کے تعلیم یافتہ لوگ کتنے غیرت مند ہیں، کتنا خیال رکھتے ہیں، وہ عورتوں کی عزت کا، تعلیم یافتہ ہونا اگر یہ ہے کہ پنجابی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں، تو معاف کرنا ہمیں اس طرح کی تعلیم نہیں چاہیئے۔ ہم روایتی لوگ ضرور ہیں، مگر ہمیں معاشرتی اقدار کا بہتر علم ہے۔ ہمیں بہتر پاسبانی کرنا آتا ہے۔

ہم دوسرے قوموں کو اپنے اندر اِس لیئے برداشت نہیں کرسکتے، کیونکہ ہمیں اپنے زبان، اپنے کلچر اور اَپنے وطن عزیز ہیں۔ اُس کو خراب کرنے کی اِجازت کسی بھی قیمت پر نہیں دیں سکتے۔ بدقسمتی سے بلوچستان تو صدیوں سے اپنے سینے کے اندر جنگیں برداشت کرتا آرہا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی علاقوں میں قبضہ گیریت کے نام پر یہ سلسلہ جاری ہے لیکن روز اول سے اپنی سرزمین کی بقا کی خاطر اِس کے بہادر سپوت اپنے جانوں کی قربانی دیتے چلے آرہے ہیں۔ اِن جنگوں نے بلوچ قوم کو جتنا نقصان پہنچایا، اتنا ہی ان کے دلوں میں اپنے سرزمین کے لئے محبت پیدا کی ہے۔

11 اگست 1947 کو جب بلوچستان انگریزوں سے آزاد ہوا، بدقسمتی سے اُسی وقت پاکستان کے نام سے ایک ملک بنا۔ پاکستان بنانے والے بھی بعد میں پچھتاتے رہے کہ ہم نے یہ ملک کیوں بنایا ہے۔ پاکستان کا بارڈر ہمارے پاک بلوچستان سے ملتا ہے۔ اسی وجہ سے جناح نے خان اَف قلات کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ بلوچستان کو پاکستان کے ساتھ ملائیں۔ اسی وقت خان آف قلات نے اپنے لوگوں کو بلا کر مشورہ کیا، وہاں بیٹھے بلوچوں اور خان اف قلات کے بھائی نے اس عمل سے انکار کیا ۔ پاکستان نے اپنے ایک ریڈیو پر اعلان بھی کرایا کے بلوچستان پاکستان کے ساتھ یکجا ہونے کے لئے وہاں کے نمائندے راضی ہیں۔ پاکستانی فوجیوں نے قلات پر حملہ کرکے قبضہ کیا۔ خان آف قلات کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا گیا۔ خان اف قلات کے گھر کے سامان کی لوٹ ماری کی گئی۔ اسی دن سے بلوچوں نے پاکستان کے خلاف ایک جنگ شروع کردی ہے۔ وہ جنگ آج تک جاری ہے۔

یہ جنگ بلوچستان کی آزادی تک چلتا رہے گا۔ 70 سال کی اس جنگ میں بہت سے بلوچوں نے اپنے جان کی قربانی دی ہے اور اب تک دے رہے ہیں ۔ بلوچ گوریلا جنگ اب تک جاری ہے ہر آنے والے دنوں میں پاکستانی فورسز پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ اس جنگ میں زیادہ تر نوجوان شہید اور بہت سے اب تک لاپتہ ہیں۔

70 سال کی اس جنگ میں اپنے ہی بلوچوں نے پاکستانی ریاست کی دلالی کر کے قومی تحریک کو نقصان دینے کی کوشش کی ہے۔ بہت سے سرداروں، نوابوں نے اسی وقت سے پاکستان کا ساتھ دے کر بلوچوں کو غلام بنانے کی کوشش کی ہے۔ فوجی آپریشن بلوچ علاقوں میں کرانے میں یہ ریاست کا ساتھ دیتے آرہیں ہیں۔

بلوچستان پر قبضہ کرنے کے بعد نواب نوروز خان نے پاکستان کے خلاف جنگ شروع کیا تھا، بعد میں اس کو قرآن مجید کا واسطہ دے کر پہاڑوں سے نیچے آنے کا کہا گیا کہ آپ کے مطالبات پورے کر دیئے جائیں گے۔ مگر اس طرح نہ ہوا اسے گرفتار کرکے شہید کردیا گیا۔ پاکستان کی ظلم بلوچ آبادی پر ختم نہیں ہوا تو اسی ظلم کے خلاف بہت سے بلوچ پہاڑوں پر جانے کے لیئے مجبور ہوگئے۔

ایک اور نواب پاکستان کے خلاف باغی بن گیا نواب خیر بخش مری افغانستان جا کے پاکستان کے خلاف ہوئے 20 سال جلا وطن ہوگئے تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی نے پاکستان کے خلاف جنگ شروع کردی، جنگ کرتے کرتے 2006 میں نواب صاحب کو فوجی آپریشن میں شہید کیا گیا۔ نواب صاحب کے شہادت کے بعد بلوچستان کے حالات اور زیادہ خراب ہوگئے۔ اس کے بعد بلوچ تحریک نے ایک الگ موڑ لے لی بلوچوں کے دلوں میں پاکستان کے لئے اور زیادہ نفرت پیدا ہوگئی۔ 2006 کے بعد بلوچستان میں سیاسی پارٹیاں پوری طور پر فوج کے گود میں جا کے بیٹھ گئے۔ ان میں نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی بلوچ نسل کشی میں پاکستان کا ساتھ دیتے رہیں۔

ریاست نے ایک اور عمل شروع کردیا کے چوروں کو اپنی طرف لاکر ان کو اسلحہ دے کر بلوچ نسل کشی کے لئے استعمال کیا۔ ڈیتھ اسکواڈ کے سراج رئیسانی کو سرکار نے بلوچ تحریک کے خلاف استعمال کر کے آخرکار اس کو ایک خودکوش دھمکہ میں مار دیا۔ اس کے ساتھ بے گناہ 250 کے قریب لوگوں بھی شہید ہوگئے۔ اسی طرح شفیق مینگل، سرفراز بگٹی، ثناء زہری ، راشد پٹھان ،علی حیدر محمد حسنی ۔ میر اللہ ، مقبول شمبےزئی اور بہت سے لوگ ریاست کے لئے کام کررہے ہیں۔

بلوچستان کے علاقوں میں فوجی آپریشن معمول کی بات بن چکی ہے۔ عورتوں اور بچوں کو اغواہ کر کے کیمپوں میں لیئے جاکے بند کرنا ۔پاکستانی میڈیا سمیت علاقائی نمائندے بھی خاموش بیٹھ کے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے لئے 3175 دن بھوک ہڑتال میں ماما قدیر بیٹھ کر انکی واپسی کے لئے جہدوجہد کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے مسئلہ کو کوئی سننا نہیں چاہتا کہ بلوچ کس حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان میں ظلم کے خلاف خاموش رہنے والے بلوچ اور دوسرے قومیں اس ظلم میں برابر شریک ہیں۔

 

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔