بلوچستان فتح ہوا شازین بگٹی ؟ ۔ سمیر جیئند بلوچ

397

بلوچستان فتح ہوا شازین بگٹی ؟

تحریر۔ سمیر جیئند بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے، جتنا پرانا ہو اتناہی مشہور ہوکر اپنے آپ کو دوچاند لگا دیتا ہے۔ یوں اس کا مزہ دوبالا ہوجاتاہے۔ تاریخ میں صادق او جعفر کے نام سنا ہوگا، ہر وقت انکے نام آنے پر لبوں پر بے ساختگی سے بچکند آجاتا ہے یعنی کوئی لب بغیر مسکرائے نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح چند ماہ قبل انڈیا سے دنگل کا اعلان کرنے والے دو بھائی بھی تاریخ کا حصہ ایک چٹکی میں بن گئے، اس اعلان سے پہلے ہمیں کچھ ماضی میں جانا ہوگا کہ ان گبرو جوانوں نے آخر انڈیا سے پنگہ لینے کا اعلان کیوں کیا وہ بھی اپنے آباؤ اجداد کے جدی پشتی دشمن اور قاتل پاکستان کی خاطر؟

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، جب برطانیہ کے بے تاج بادشاہ فرنگیوں نے ہندوستان کو خیرباد کہنے اور مکمل یہاں سے جانے کی تیاری کی تو انھوں نے اسے دولخت کردیا اورساتھ ہی ساتھ ان کے درمیان ایک ایسا تنازع پیدا کردیا کہ جب تک پاکستان کا وجود دنیا کے تباہی کیلئے رہے گا، یہ تنازع بھی اس کے سائے کی طرح ساتھ رہے گا کیونکہ فرنگی کو پتہ تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جب تک اسے گدھے کی طرح لگام نہ ڈالا جائے، یہ سیدھے راہ پر چلنے کا نام ہی نہیں لے گا۔ پس انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو بطورلگام بیچ میں چھوڑدیا، آگے چل کر یہ تنازعہ کبھی اسکرین پر نمودار ہوا تو کبھی بیک سین میں چلاگیا کیونکہ جب آقاوں نے دیکھا کہ ہماری بلی ہم کو میاؤں کرتی ہے، تو انہوں نے اس مسئلے کو فرنٹ بنایا، جب بلی سوگئی تو اس مسئلے کوپیچھے ہٹا دیا یعنی ریزرو رکھانتیجتاً یہ سلسلہ گذشتہ ستر سال سے لٹکتا چلا آرہا ہے۔

جہاں پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں اپنے دون ٹانگیں گنوا بیٹھا، اس کے علاوہ وقتاَ فوقتاً انڈیا کے ہاتھوں بوقت ضرورت جب کھجلی کی ضرورت محسوس کی اپنے آپ کو رگڑوایا ۔ انڈیا نے ہاتھ پھیلا کر خوب اسکی رگڑائی میں کوئی کثر ہمسایہ ہونے کے ناطے نہیں چھوڑا ۔ اور چند ماہ پہلے پھر پاکستان کو کھجلی کی ضرورت پڑی تو انڈیا کو اطلاع دیئے بغیر اپنے آپکو رگڑنا شروع کیا، تو انڈیا کو غالباَ نیند آگئی ہوگی اچانک اس نے اپنے ہاتھ روک دیئے۔ پاکستان اس سے بدتمیزی سے بات کرنے والاہی تھا کہ بلوچستان کے دونواب زادوں نے انڈیا کو کھری کھری سنادی، جی ہاں آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ دونوں دس سال قبل گوریلا جنگجو نواب زادے شازین بگٹی اور گہرام بگٹی نے اپنے دادا شہید نواب اکبر خان کے ڈر کے سبب پاکستان کے خلاف بلوچستان کی آزادی کیلئے بندوق اٹھائی، جونہی نواب اکبر خان جام شہادت نوش کرگئے تو یہ دونوں پہاڑوں سے بھاگ کر پاکستان کے گود میں بیٹھ گئے کہ ہم اپنے شہید دادا کی خوف سے پہاڑ گئے تھے کیونکہ انھوں نے ہمیں کہا ورنہ ہماری اوقات کہاں کہ ایک غلام کے ناطے ہم مائی باپ سے لڑتے۔ اس کے بعد پاکستان نے اپنے تسلی کیلئے انکے دو تین بے عزتی کے پرچے بطور امتحان لیئے جس میں دونوں بھائی اول پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے بعد انھیں حکومت پاکستان کی طرف بے ضمیری اور بے حیائی کے اسناد دیئے گئے اور اپنے مہر بھی بطور ثبوت انکے پیشانیوں پر ثبت کردیئے، یوں وہ پاکستان خصوصاً فوج کے جیالے بن گئے۔

اس دوران جب بھی کسی نے پاکستان کے خلاف لب کشائی کی انہوں نے پاکستان کی خاطر اپنا عزت نیلام کیا، اپنے بلوچ سرمچاروں کے خلاف ڈیتھ اسکوائڈ بنائے، جنہیں امن لشکر کا نام دیا گیا۔ اس کے ذریعے سینکڑوں بلوچ آزادی پسندوں کو شہید اور انکے بال بچوں کو اغواء کرنے سمیت مختلف نیچ اور گرے ہوئے حرکت نہ صرف کئے بلکہ اس میں آج بھی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ جیساکہ پہلے کہا گیاکہ جب انڈیا نے پاکستان پر حملے کی تیاری گذشتہ چند ماہ قبل کی تو ان دونوں بھائیوں نے اعلان کیا کہ جب انڈیا نے جنگ چھیڑی تو ہم دونوں بھائی پاکستانی فوج سے پہلے انڈیا میں داخل ہوکر دہلی پر قبضہ کرلیں گے۔ اس اعلان کے بعد انڈیا نے پاکستان کے خلاف جنگ کرنے سے گھبراکر خاموش رہنا پسند کیا، حالیہ دنوں یقیناً انڈیا اپنے دوسرے مصروفیات کے سبب ان دونوں بھائیوں کے چیلنج کو بھول گیا ہوگا نے پاکستان پر پھر حملہ کرنے کی تازہ دھمکی دی تو پاکسان کے آرمی چیف نے اپنے بغل بچہ عمران خان کے ذریعے شازین بگٹی اور گہرام کیلئے ایلچی بھیج دیئے کہ انڈیا نے پھر اعلان کردیا ہے لہٰذا آپ دونوں حضرات اپنے آپ کو تیار رکھیں کیونکہ پاکستان نے آپ دونوں کی موجودگی کے سبب اپنے ایٹمی ہتھیار فالحال انڈیا کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔

آخری اطلاع تک دونوں بھائیوں نے ایلچی سے مذید ایک ہفتے کی مہلت یہ کہہ کر طلب کی ہے کہ ہم نے اپنے نئے کپڑے جن پر پاکستان کا پرچم لگا ہوا ہے درزی کو سینے کیلئے دیئے تھے، مگر اس وقت انڈیا نے جنگ کا ارادہ نہیں کیا تھا تو کپڑے تیار ہو گئے مگر ان میں واٹر پروف کا سسٹم شامل نہیں کیاگیا، لہٰذا ہم پر اعتبار کرکے ہمیں اجازت دی جائے تاکہ ہم اپنے لئے نئے کپڑے بنوائیں، اور ساتھ ہی انھوں نے کہا ہے کہ ہم ساتویں دن حاضر ہونگے مگر اسلام آباد کے بجائے واھگہ بارڈر کیونکہ ہم بھائیوں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک انڈیا کو شکست نہیں دیتے ہم اپنا منہ آرمی چیف پاکستان کو نہیں دکھائیں گے۔ یہ پیغام لیکر ایلچی واپس اسلام آباد گئے ہیں، اب دیکھنا ہے کہ مائی باپ انکے بارے میں کیا کہتے ہیں ایک ہفتے کا مہلت دیتے ہیں یا واٹر پروف شلوار کا انتظام خود راولپنڈی چھاونی سے کرواتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔