انیتا جلیل – کے۔ بی فراق

790

انیتا جلیل

تحریر: کے۔ بی فراق

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں کہتے تو ہیں ترقی پسند، روشن خیال اور خواتین کی سیاسی، سماجی اور ادبی معاملات میں موجودگی کے حوالے سے کامریڈانہ سیاسی حکمت دیدنی ہے۔ جس کو اگر اصل صورتحال میں دیکھنا چاہتے ہو تو عملی طور پر فعال کردار ادا کرنے کے سلسلے میں بلوچ خواتین کی شرکت کو ایک مثال سے دیکھ لیں کہ ایک کامریڈ اور روشن فکر کس طرح شادی سے پہلے اپنی فکری دوست اور شادی کے بعد ایک دوسرے کے مابین رویوں میں بدلاؤ، ایک عجب طرح کی چمتکاری صورت دیکھنے میں آئی اور وہ اپنی دوست کو یہ باور کراتے ہیں کہ شادی کے بعد بھی ہم ایک دوسرے کی باہمی معاونت سے اپنی سوچ کو بروے کار لانے میں جدوجہد کا عمل برابر جاری رکھتے ہیں لیکن ہوا یوں کہ یہی کامریڈ پھرایک محض غیرت مند بلوچ بنتا ہےاور اس پر فکری ہم آہنگی کے باوجود گھر میں بیھٹنے کی تاکید کرتا ہے کہ پتہ ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کا سیاسی، سماجی عمل میں فعال شمولیت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے، اس لیئے یہ بات گرہ میں باندھ لیں اور آئیندہ کبھی اس بابت سوچنا بھی نہیں۔ جبکہ یہی کردار کبھی بلوچستان کے معروضی حالات کو سمجھے بِنا لینن کا ساتھ دینے والی اُس کی بیوی کروسپکایا کا مثال دیتے ہوئےنہیں تھکتے۔ اب جب اس بابت کچھ کرنے کی صورت وضع کرنی ہے تو محترم کا مزاج بالکل ایک قبیلے کے چیف کے موافق دکھائی دےرہاہوتا ہے۔

اس لیئے ہم آپ بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں میں خواتین کی موجودگی کو برائے نام دیکھتے ہیں اوراس سلسلےمیں پارٹی قائدین کا اپنے گھر سے یہ کام شروع کرنے کی وابستگی دکھائی نہیں دیتی چہ جائیکہ ایک دوسری سطح پر کوئی صورت وضع ہو۔ یہ تو میرے مشاہدے اور تجربے کی ہےجب گوادرمیں ایک پارٹی نےایک معروف نابینا گلوکارہ کو کونسلر کے لیے نامزد کیا تو اُس پارٹی سے متعلق ایک محترم کی مجھ سے ملاقات ہوئی، تو ساتھ ہی یہ سوال بھی جھٹ پوچھ لیا کہ بلوچی میں کسی کو بددعا دینا ہو تو اس کو کہا جاتا ہےکہ خدا کرےکہ آپ اندھے رہیں یعنی جاہل ہی رہیں اور علم کی روشنی تم تک نہ پہنچے۔ تو میں نےاُن سےکہا کہ آپ نےسراپا بددعاکو بلدیاتی انتخابات میں نامزدکیا۔ لیکن وہ محترم دلیل پر دلیل دیتے رہے کہ یہی بہتر نمائندگی کریں گی۔ جس پر مجھے اس کی حالت دیکھ کر ترس آیا۔ میں نے پوچھا کہ :

کیا اس سے بہتر نہیں تھا کہ آپ اس کی کوئی جینوئن کام کرتے اس کی جگہ اپنے گھر میں موجود تعلیم یافتہ کسی بہن کو الیکشن کے لیے نامزد کرتے تو بہتر نہیں ہوتا؟ لیکن اس کی صورت دیکھنے لائق تھی کہ اس پر جیسے عبرت طاری ہو۔ وہ کہنے لگے کہ میرے بڑے بھائی کو کون سمجھائے گا۔ جس کام کا آغاز اپنے آپ سے ہونا چاہیئے تھا وہ ہواہی نہیں اس لیئےاس تناظر میں ایک برترجہت دیکھنے سے عاری ہیں جبکہ آپ انقلاب برپا کرنے چلے ہو۔ لیکن ایک ادنیٰ ساانقلاب گھر کی چوکھٹ میں برپا کرنے سے مصلحت برت رہے ہو اور اسی گھٹن زدہ اور تنگ نظر ماحول میں اگر ایک لڑکی کچھ کرنا چاہے، تو پتہ ہے اس کےلیئے کتنے بڑے چیلنجز ہونگے؟ جس معاشرے کاحافظہ یہ بیانیہ لیے تقویت پاچکی ہو کہ مرد عورت کے لیئے مجازی خدا کے موافق ہے وہ آپ کےساتھ جو کچھ کرے روا ہے۔ اس لیئےاس کی حکم عدولی نہ کریں اور نہ اس سےہٹ کر سوچا کریں۔

جب یہ سب ہو رہا ہوتا ہے تو اس ترقی پسند کردار یا کامریڈ کو ایک ملا ہی کی شکل میں ملاحظہ کر رہا ہوتا ہوں۔ جو کبھی ملائیت کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں۔ حالانکہ گوادر کی فضا اس قدر تکلیف دہ نہیں۔ البتہ وہ سوچ ہنوز باقی ہے جس کی ایک بار ایک خواتین کےمسائل کے حوالے سےمنعقد کئے جانے والے ڈرامے کے سلسلے دیکھنے میں آیا۔ اس بیچ اس پروگرام کے منتظم نے آکے مجھ سے ملاقات کی اور اپنا پروگرام شیئر کیاکہ اپنےگھر کی خواتین کو اس پروگرام کے لیے بھیج دیں تو میں نے پوچھا کہ آپ کی خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں یا آ رہی ہیں۔ میرےاس طرح پوچھنےپر جیسےاُس پر آسمانی بجلی گری ہو اور کہنے لگا کہ میرے گھر والے کیونکر شرکت کریں گے۔

میں نے پوچھا کہ کیا یہ غلط کام ہو ریا ہے؟ تو میرے گھر والوں کی شرکت کا کیونکر پوچھ رہے ہو؟ میرے گھر والے ضرور شرکت کریں گے۔ اگر اس نیک کام میں آپ پہل کریں کیونکہ آپ کی خواتین بھی یہ حق رکھتی ہیں کہ یہ سب دیکھ لیں۔ لیکن وہ منتظم، ترقی پسند ،نقاد ادیب تیار نہ ہوئے اور نہ مان گئے۔

جب صورتحال اس طرح منافقت سرشت ہو تو اس تناظر میں ایک لڑکی کا وی لاگر بننااور وہ بھی پہلی حیثیت کا حامل ہونا ایک جرات آمیز قدم ہے، جس کی مجھ جیساخاکسار حوصلہ افزائی کئے بِنا نہیں رہ سکا، کیونکہ میں نےہر وقت خواتین کو مقام،شناخت اوراپناآپ جاننےاور تعین کرنے کی بھرپور سراہنا کی۔ جس کے لیے انیتا جلیل کی اس شعبہء زندگی میں آنے سے ایک گونا مسرت ملی کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ جس کے لیے انھوں نے وی لوگر، ریڈیو میں بطورِآر جے،تھیئٹر میں گوادر کی پہلی لیڈنگ رول کرنے والی لڑکی اور مختلف پروگرام میں بحیثیت میزبان کے فرائض بھی ادا کرتی رہیں۔ شاید یہ سب بہتوں کےلیئے غیرت کا مسئلہ ہو۔ کیونکہ ہماری طرح کی ذہنی کنگلے معاشرے اکثرغیرت کوعورت کےکاندھوں پہ رکھتی ہیں اور مرداساس معاشرہ اگر کسی عورت کو اس طرح کی سرگرمیوں میں دیکھتی ہیں۔ تو ان کی پیشانی پر اتنے بل پڑتے ہیں کہ گنتے ہوئے شاید اس کی حالت غیر ہو لیکن عصرِ حاضر کے تناظر میں عورت کی رائے ضرور سامنے آنی چاہیئےاور اس کا سُننا ناگزیر ٹہرتا ہےوگرنہ اس بڑی آبادی کو محض ذہنی غلاموں کی طرح سلوک روا رکھنا اور اس کو مجبورِ محض تعبیر کرنا اب کے ممکن نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں جو خود کو ترقی پسند کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ان کو اس بابت اپناطرزِ فکرو نظردرست کرتےہوئےاس بابت اپنی ذہنیت بدلنی ہوگی۔ چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں لیکن انیتاجلیل جیسی لڑکیاں ایک برترامکان کی طرف اشارہ کر رہی ہیں، جس کو توجہ دینا اور اس بابت سوچنا لازم ہے۔کیونکہ انہی میں سےکوئی آگےچل کر بڑی تخلیقی وجود کی شکل میں اپنا آپ منقلب کر پائے گی۔