امریکی فوج کا کہنا ہے انھوں نے پاکستان کی جانب سے شدت پسند عسکری گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں نہ کرنے پر 30 امریکی کروڑ کی امداد منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سینچر کی شب پینٹاگون کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کونی فاکنر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمۂ دفاع یہ اب یہ رقم ’دیگر فوری ترجیحات‘ پر صرف کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل کونی فاکنر نے مزید کہا کہ امریکہ پاکستان پر ملک میں سرگرم’تمام دہشت گرد گروہوں بشمول حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کے خلاف بلاامتیاز کارروائی‘ کے لیے دباؤ ڈالتا رہے گا۔
پینٹاگون کی جانب سے اس تجویز کی امریکی کانگریس سے منظوری ضروری ہے۔
یہ رقم پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈز کی مد میں ملنا تھی جس کے بارے میں رواں سال کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بےوقوفی کی۔ انھوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔‘
ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان پر الزام ہے کہ وہ افغانستان میں سرگرم شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے تاہم پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اپنا رویہ تبدیل کر لے تو یہ امداد بحال کی جا سکتی ہے۔
امریکی حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس اگر پاکستان کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف ٹھوس کارروائیاں دیکھتے تو ان کے پاس 30 کروڑ ڈالر فراہم کرنے کا موقع تھا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔
لیفٹیننٹ کرنل کونی فاکنر نے کہا کہ ’پاکستان کی جانب سے ساؤتھ ایشیا سٹریٹیجی کے تحت فیصلہ کن کارروائیوں کے فقدان کے باعث بقیہ 30 کروڑ ڈالر کو ری پروگرام کیا گیا ہے۔‘
لیفٹیننٹ کرنل فاکنر کا کہنا تھا کہ اگر کانگریس نے منظوری دے دی تو پینٹاگون اب یہ رقم ’دیگر ضروری ترجیحات‘ پر صرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس نے پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈز کے 50 کروڑ ڈالر رواں سال کے آغاز میں بھی روک لیے تھے، جس سے بعد اب روک لی جانے والی کل رقم 80 کروڑ ڈالر ہوجائے گی۔
خیال رہے کہ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور اعلیٰ امریکی فوجی افسر جنرل جوزف ڈنفورڈ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ہیں۔
منگل کو مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ دورہ اسلام آباد کے دوران گفتگو کا اہم موضوع عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ ہو گا۔