‎مزار بلوچ – ‎انقلاب ایران

325

‎انقلاب ایران

‎تحقیق و ترتیب : مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‎کہتے ہیں کہ ایک آزاد ریاست میں عوام کو زندہ رہنے کیلئے تمام بنیادی ضروریات، انسانی حقوق میسر ہوتے ہیں۔ آج دنیا میں کچھ ریاستیں ایسے بھی ہیں جو کہنے کو آزاد ہیں لیکن ان کی عوام غلامی سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں ان میں سے ایک ریاست ایران بھی ہے۔

‎جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی تاریخ میں اقتدار ہمیشہ طاقتور شخصیتوں کے پاس رہی ہے۔ جنہوں نے نہ صرف اپنی طاقت میں بے تحاشہ اضافہ کیا بلکہ عوام کوہمیشہ اپنی پاؤں تلے روندتے رہے ہیں۔ رضا شاہ سے لیکر امام خمینی تک عوام کی حالات زندگی میں کبھی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی ہے ۔ شاہ کے دور میں حکومتی اقتدار میں شاہ کے اہل خاندان اور شاہ کے من پسند لوگوں کو حکومت میں شامل کیا گیا ، جو شاہ کے ہر فیصلے کا خیر مقدم کرتے رہے ہیں۔ ملک کی اقتصادیات نظام میں کرپشن زوروں پر تھی سیاسی نظام سرے سے وجود نہیں رکھتا تھا، ملکی معاشیات سے شاہ اور اس کے اہل خاندان اور من پسند لوگ مزے لوٹ رہے تھے، عوام کی حالات بد سے بدتر ہو رہی تھی، صنعتی مزدور کسان و دہقان دو وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے، اگر کسی نے اپنے حق کیلئے آواز اٹھائی تو اسے ملک کے خلاف سازش قرار دے کر اسے زندانوں میں بند کر دیتے یا گولی مار کر ہلاک کردیا جاتا تھا۔ شاہ طاقت کے نشے میں تھا، شاہ کے استبداد و استحصالی پالیسیاں ہی شاہ کا زوال ٹھرے۔

‎جس ملک میں عوام کو بنیادی حقوق نہ ملے، سیاسی نظام نہ ہو، کرپشن زوروں پر ہو، عام عوام تشدد کی ذد میں ہو، وہاں انقلاب لازمی امر ہوتا ہے۔ شاہ کی اقتدارکو ختم کرنے میں سیاسی پارٹیاں ،امام خمینی اور عوام نے اہم کردار ادا کیا ہے، شاہ کے اقتدار چھینے کے بعد ایران میں امام خمینی نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا، امام خمینی کو عام عوام اور سیاسی پارٹیوں نے سپورٹ کیا تاکہ ملک میں جمہوری نظام کی بلا دستی ہو عام عوام کی حالات زندگی میں بہتری آئے اور ملک ترقی کرسکے ۔لیکن امام خمینی نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیکر شاہ سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل گیا ، پاسدارانِ اسلامی انقلاب کے نام پر اقتدار پر قابض ہوگیا ملکی داخلی و خارجی پالیسیاں سب امام خمینی کے ہاتھ میں آگئے۔ ملکی معاشیات سے امام خمینی اور اس کے من پسند شخص مزے لوٹنے لگے، کرپشن زوروں پر آگئی انقلابی سیاسی پارٹیوں اور پریس کے خلاف قانونی پابندیاں عائد کر دی گئی، عام عوام جس کی حالات شاہ کے دور میں جو تھی اُس سے بھی بدتر ہوگئی۔

‎قاچاری دور ۔

‎قاچاریوں نے ایران پر سوا دوسو سال تک حکمرانی کی لیکن ایک بھی سرزمینِ ایران کا وفادار نہ ہوا۔ قاچاری اس وقت برسرِ اقتدار آئے جب انقلابِ فرانس کی گونج پورے یورپ کو لرزارہی تھی ۔قاچاری دور میں محمد علی باب کو قتل کر دیا گیا جو بابی تحریک کا رہنما تھا اور بابیوں پر فوج کشی کی گئی جس میں جوان ، بوڑھے ، عورتوں اور بچوں کو بڑی بے دردی سے قتل عام کر دیا گیا قاچاری دور میں ایران پر غیر ملکی کمپنیاں قابض ہوگئی اور ایران میں لوٹ مار کا بازار گرم کرکے عوام کا استحصال کرتے رہے ۔

‎بیداری کی لہر ۔

‎ایران میں بیداری کی لہریں سب سے پہلے آذربائیجان میں اٹھیں جو ایران کا مغربی علاقہ ہے اور جس کی سرحدیں ترکی اور روس سے ملتی ہیں مرزا جعفر نامی ایک آذربائیجانی نے ایران میں ایک چھاپہ خانہ 1818 ء میں تبریز میں قائم کیا اور اس طرح ایران میں افکارِ جدید کی نشر واشاعت کی داغ بیل ڈالی مغربی علوم کی کتابوں کے ترجمے بھی پہلے تبریز میں ہی شائع ہوئی ، ایران میں پہلااخبار جس کا نام ’ اعلان نامہ ‘ تھا 1837 ء میں محمد علی قاچار کے عہد میں تہران سے شائع ہوا ، کچھ عرصے بعد تہران ، تبریز اور شیراز وغیرہ سے بھی متعدد اخبار اور رسالے شائع ہونے لگے ان میں ملکی اور بیرونی خبروں کے علاوہ ایران میں کرپشن اور زبوں حالی کا تذکرہ ہوتا اور حکومت پر بھی تنقیدکی جاتی تھی مگر سلطان ناصر الدین شاہ قاچار نے تخت پر بیٹھتے ہی ان تمام اخباروں کی اشاعت پر پابندی عائد کردی لیکن ملک کے کئی ممتاز اہل قلم نے قفقاز ، استبول ، مصر ، لندن ، بمبئی ، کلکتہ اور برلن میں پناہ لیکر وہاں سے اخبار اور رسالے شائع کرنے لگے، یہ اخبار اور رسالے خفیہ طور پر ایران بھیجے جاتے اور بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے اورسیاسی انقلابی پارٹیوں نے بھی اپنی سرگرمیاں خفیہ طور پر جاری رکھی تھی تاکہ عام عوام سے ان کا رشتہ مضبوط ہو اور عوام شاہ کے ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوکر اپنے حقوق کیلئے عملی طور پر جدوجہد میں شامل ہو جائے

‎مشروطہ کی تحریک ۔

‎مشروطہ کی تحریک مظفر شاہ کی دور میں شروع ہوئی۔ ایران اس وقت غیر ملکی سرمایہ دار وں کے قرضے سے ڈوب رہا تھا، مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی، تاجر دکاندار اگر سامان مہنگے دام بیچتے تو سرعام کوڑے پڑتے۔ تہران کے حاکم علاؤالدولہ کی ظلم و ستم کے خلاف تاجروں اور علماء دین نے احتجاج کے طور پر 13 دسمبر 1904 ء کو زاویہ حضرت عبدالعظیم میں پناہ لی احتجاجیوں کا مطالبہ فقط یہ تھا کہ علاؤالدولہ کو بر طرف کیا جائے اور مقدمات کیلئے عدالت خانے قائم کیے جائیں۔ مظفر الدین شاہ کو آخر کار یہ مطالبات ماننے پڑے اور 12 جنوری 1906 کو ایک فرمان شاہی دستخط سے جاری ہوا۔ لیکن اہل بست جب زاویہ عبدالعظیم سے گھروں کو لوٹ آئے تو شاہ اپنے دستخطی اعلان سے منحرف ہو گیا۔ دوسری بست کا آغاز 6 جولائی 1906 ء میں ہوئی ہزاروں تاجروں ادیبوں نے برطانوی سفارتخانے کے احاطے میں پناہ لی مشروطہ کی یہ تحریک ایک ماہ تک جاری رہی اور 5 اگست کو آئین کے حق میں ایک شاہی فرمان جاری ہوا۔ 19 اگست کو ایک مجلس نمائندگان کا قیام عمل میں آیا۔ ستمبر میں انتخابات ہوئے ۔3 ماہ بعد مظفر الدین شاہ انتقال کر گئے اور 19 جنوری 1907 ء کو اس کا بیٹا محمد علی شاہ تخت نشین ہوا ۔مشروطہ تحریک کی ناکامی ایران کی نوآبادتی معیشت تھی جو استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں تھی وزارت اور مجلس شورائی دونوں میں عناِن اختیار فیوڈل عناصر کے ہاتھوں میں تھی مشروطہ پہلے ہی دن سے سیاسی اقتصادی بحرانوں میں پھنس گیا عوام کے مسائل جمہوری اقدار فروغ دینا تو دور کی بات مشروطہ کوئی پائیدار حکومت بھی قائم نہ کر سکا ۔

‎امریکی عمل دخل ۔

‎مشرق وسطیٰ میں ایران کو جو اہمیت حاصل ہے، وہ سب جانتے ہیں اس لئے امریکہ کے پالیسوں کے پیش نظر ایران 1942 ء سے امریکہ کے نظروں میں تھا۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ تیل ایران کے پاس ہے اس لیے امریکی حکومت یہ کبھی نہیں چاہتا تھاکہ ایران کے تیل پر کوئی اور طاقت قابض ہوسکے خاص کر سوویت یونین ۔لہٰذا امریکہ نے خلیج فارس کی باقاعدہ ایک کمان بنائی اور تیس ہزار امریکی سپاہی ایران لائے گئے انھوں نے ایرانی بندرگاہوں کی مرمت کی ، ہوائی اڈے بنائے ، سڑکیں تعمیر کیں اور خلیج فارس کے ساحل سے تہران تک ریلوے لائن بچھائی اور بیشتر ان کی سرگرمیاں خلیج فارس کے ساحلی علاقوں تک جہاں تیل کے چشمے ہیں مرکوز رہیں اس کے علاوہ شاہ نے جو بھی قدم اٹھائے ہیں اچھے ہوں یا برے امریکہ ہمیشہ شاہ کے ساتھ رہا ، 1946 ء اور 1947 ء میں آذربائیجان اور کردستان کی صوبائی خودمختاری کی تحریکوں کو کچلنے میں امریکہ نے ساتھ دیا ہے ۔

‎پہلوی ریاست کا کردار ۔

‎رضا شاہ پہلوی خود شرکتی سرمایہ دار تھے ریاست وہ خود تھا۔ جس کا کام صرف اپنی سرمائے میں اضافہ کرنا تھا۔ شاہ امریکہ ، برطانیہ اور مغربی جرمنی کی بین الاقوامی کارپوریشنوں کے جونیئرپارٹنر کی حیثیت سے کاروبار کرتے تھے۔ شاہ اپنے ملک میں بورژوا طبقے کے شرکتی سرمایہ داروں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا تھا لیکن ریاستی امور میں شریک کار بنانے کا خیال بھی نہیں کرتا تھا ۔ریاستی امور کے پالیسیاں شاہ اور امریکہ کے ہاتھوں میں تھی ۔رضا شاہ پہلوی 1953 ء میں سی ۔ آئی ۔ اے اور ایرانی فوج کی مدد سے برسرِاقتدار آئے تھے۔ انھوں نے سرمایہ داری نظام کے حدود میں رہ کر ریاست کے استبدادی اداروں کو مضبوط بنایا ۔ 1970 ء میں تیل کی آمدنی بڑھی تو رضا شاہ نے اپنی فوجی طاقت اتنی بڑھائی کہ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی اس کا ہمسر نہ رہا ۔فوجی آمریت میں ریاست کا کنٹرول فوج کے ہاتھوں میں ہوتا ہے لیکن رضا شاہ ریاست بھی خود تھے اور فوجی کنٹرول بھی شاہ کے ہاتھوں میں تھی جوبھی فوجی یا سیاستدان شاہ کے فیصلوں کے خلاف بغاوت کرتا یا آواز اٹھاتا اسے گرفتار کرکے زندانوں میں ڈال دیا جاتا، جھوٹے مقدمات کے تحت گولی مارنے کا حکم بھی دیتے تھے۔ پہلوی ریاست کے استبدادی ادارے ایران کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ میں عمان کے سلطان قابوس کے خلاف ظُفار کے صوبے میں عوامی تحریک شروع ہوئی تو شاہ نے سلطان کی حمایت میں کئی ہزار ایرانی سپاہی اور جنگی اسلحہ عمان روانہ کیے نومبر 1971 ء میں خلیج فارس کے تین جزیروں پر زبردستی قبضہ کرلیا ۔شاہ کی سب سے سفاک استبدادی تنظیم ساواک جس نے ایرانیوں کی زندگی عذاب بناکر رکھ دی جس نے ظلم کی انتہا کردی ہے کئی ہزار بے گناہ شہریوں کے قتل سے اپنی تاریخ رقم کردی۔

‎پہلوی دور کی سیاسی تنظیمیں

‎1920 ء میں تودہ پارٹی قائم ہوئی مگر 1928 ء میں تودہ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی۔ رضا شاہ اول کی معزولی کے بعد تودہ پارٹی کے علاوہ ایران پارٹی ، فدائیان اسلام ، نیروئے سوم ، حزب زحمت ، کشان ملت ایران ، اور پین ایران پارٹی وجود میں آئی جبہ ملی ( نیشنل فرنٹ ) اکتوبر 1949 ء میں بنا مگر کئی پارٹیوں کا متحدہ محاذ تھا جس کے بانی ڈاکٹر مصداق تھے ، یونیورسٹی کے کئی طلباء بھی جبہ ملی کی سیاسی جدوجہد میں برابر ساتھ رہے ہیں ۔ملیون اور مردم دونوں پارٹی شاہ نے بنائے جو شاہ کے حکم کی بجا آوری کرتے تھے ایران میں سیاسی پارٹیاں بہت کمزور تھی جو عوام کے اندر موجود تو تھے لیکن عوام کو سیاسی طور پر منظم نہ کر سکے۔

‎ایران کی سوشلسٹ تحریک ۔

‎ایران میں سوشلسٹ نظریات و تحریک سوویت یونین و بالشویک پارٹی کی مرہون منت تھیں کیونکہ سوشلسٹ نظریات ذیادہ تر کارخانوں کے مزدوروں میں پائی جاتی تھی۔ مزدوروں نے اپنی ٹرئیڈیونین بنائے یہ ٹرئیڈ یونین بڑھنے لگیں، ایران میں تمام مزدوروں کی ٹرئیڈ یونین بنیں اور اپنے حق کیلئے احتجاجوں کے ذریعے آواز بلند کرنے لگی ،ان کو سوویت یونین اور بالشویک پارٹی کی مکمل سپوٹ حاصل تھی ۔کیونکہ روسی مزدور آذربائیجان میں تفلس اور باکو کے مقام پر تیل کے ہی کارخانوں میں کام کرتے تھے وہاں ان کا ملنا جلنا ہوتا تھا۔ لیکن شاہ یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ ایران میں سوشلسٹ نظریات کا پرچار ہو اس لیے شاہ نے جو بھی سوشلسٹ نظریات کی بات کرتا یا اگر ان کی حمایت کرتا تو شاہ کا ظلم اس پر نازل ہوتا شاہ نے ان پر ظلم کے پہاڑ گرا دیتا، بہت سے گرفتار کرلیئے گئے اور بہت سے ایران چھوڑ کر بیرون ممالک چلے گئے۔

‎انقلابی ہلچل ۔

‎شاہ کے غیر ترقیاتی مصارف اقتصادی بحران 1976 ء ۔ 1977 ء کا بجٹ پہلی بار خسارے کا بجٹ ثابت ہوا جو ڈھائی ارب ڈالر کا تھا۔ ملک بحران میں گرا ہوا تھا عوام بے روزگاری کی چکی میں پس رہی تھی۔ شاہ اور اس کے اہل خاندان سمیت جو شاہ کے پسندیدہ شخص عوام کا استحصال کر کے مزے لوٹ رہے تھے اور عام عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے سنسر پر پابندی سیاسی لوگوں کو گرفتار کرکے بند کردینا ظلم اتنا بڑھ چکا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا ۔سیاسی پارٹیاں اور عام عوام سڑکوں پر نکل گئی امام خمینی بھی شاہ کے خلاف عام عوام کو جدوجہد تیز کرنے کی تلقین کررہا تھا ۔ایک طرف شاہ اپنے تخت کو بچانے کیلئے ظلم و تشدد کا استعمال کر رہا تھا دوسری طرف عام عوام، سیاسی پارٹیاں شاہ کے ظلم و تشدد کے آگے ڈٹے رہے اور آخر کار شاہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے 1979ء شاہ کو ایران چھوڑ کر بھاگنا پڑا ۔

‎انقلاب ایران کے محرکات و اسباب ۔

‎شاہ نے ایران میں استبداد و استحصال کی انتہا کردی شاہ اقتدار کے ہوس میں اپنا ہوش کھو بیٹھا، امیروں کی حوصلہ افزائی جو غریب شکایت کرتے انھیں اذیت ناک سزائیں دی جاتی ۔انسانوں کے وحشی درندوں کی طرح تشددکرنا پہلوی سلطنت کا معمول بن گیا تھا ۔کریشن زوروں پر تھی جتنے بھی شعبے یا محکمے تھے سب رشوت خوری سے چل رہے تھے۔ سب سے بڑا رشوت خور بددیانت شاہ اور اس کے اہل خاندان کے لوگ تھے جنہوں نے ملک اور عوام کی دولت کو بڑی بے دردی سے لوٹا۔ شاہ اور اس کے اہل خاندان کی ملک سے باہر اثاثوں کی مالیت 22 ارب ڈالر تھی۔ یہ تمام عوامل انقلاب ایران کے بنیادی اسباب تھے۔

‎ایرانی انقلاب کے نتائج

‎ایران کا انقلاب جابر بادشاہ کے خلاف سمیت تمام سامراجی طاقتوں کیلئے بھی بڑا دھچکا تھا۔ ایرانی عوام جو صدیوں سے شاہ جیسے بادشاہوں کی غلامی میں پس رہے تھے آخر کار اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اور شاہ جیسے ظالم بادشاہ کو شکست سے دوچار کر دیا اب شاہ کو شکست دے کر انقلاب ایک قدم آگے تو بڑھی لیکن طاقت کانشہ انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ اسی طرح خمینی بھی طاقت کے نشے میں اندھا ہوگیا۔ شاہ نے ایرانی عوام پر جو ظلم و جبر کیئے تھے اسی طرح خمینی بھی ایک ہاتھ شاہ سے آگے نکل گیا۔ انقلاب سے پہلے شاہ نے ایرانی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے، ملکی ترقی رک گئی تھی، بے روز گاری اور کرپشن عام تھی ،ملک بحرانی کیفیت سے دوچار تھی، سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں و قتل جاری تھی، پریس و سیاسی پارٹیوں پر خلاف قانون پابندی عائد کردی گئی تھی، عام عوام دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہی تھی، اور شاہ اپنے اہل خاندان سمیت من پسند لوگوں کے ساتھ ایران کی معیشت کو لوٹ کر مزے کررہا تھا ۔عام عوام یہ سوچ کر انقلاب میں شامل ہوگئی کہ آج ہم یہ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ہما رے آنے والے نسل کو یہ دن دیکھنا نہ پڑے شاہ کے بعد امام خمینی اقتدار پر قابض ہوگیا۔ امام خمینی نے اقتدار سھنبالتے ہی وہی پالیسی اختیار کی، جو شاہ کررہا تھا جو بھی اپنے حقوق کیلئے آوا ز اٹھائے اس کی آواز کو ہمیشہ کیلئے بند کرنا، سیاسی پارٹیوں اور پریس پر پابندی عائد کردی گئی، سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرکے قتل کرنا عام ہوگیا، ایرانی عوام جو شاہ کے دور میں ظلم و جبر کی زندگی گزار رہی تھی امام شاہ سے ایک ہاتھ آگے نکل گیا ۔پاسداران اسلامی انقلاب کے نام پر عام عوام سے دھوکا دیا گیا۔

‎انقلاب کے دوران لوگوں کی زبان پر ایک صرف لفظ شاہ کو تخت سے اٹھانا اور امریکی عمل دخل ختم کرنا تھا۔ عوام اگر اپنے ملک کی اقتصادی بحالی اور ترقی کا مطالبہ کریں تو یہ عوام کا حق ہے اور ایران میں اتنے وسائل تھے جس سے ملکی تعمیر نو اور عوام کی حالات میں بہتری آسکتی تھی لیکن جہاں استحصالی نظام ہو کرپشن، لوٹ مار، اورمہنگائی آسمان کو چھو رہی ہو وہاں سماج ترقی کے بجائے پسماندگی کی طرف چلی جاتی ہے ان حالات میں انقلاب ناگزیر ہوتا ہے اور ایران میں انقلاب کا سبب یہی حالات تھے۔ ایرانی انقلاب دراصل سامراج دشمن انقلاب تھا لیکن حالات اس کے برعکس ہوگئے، شاہ کے بعد ایران پر خمینی جیسا سامراج قابض ہوگیا عوام کی حالات انقلاب سے پہلے جو تھی ویسے ہی انقلاب کے بعد خمینی کے اقتدار میں آنے سے بدتر ہوگئی۔

‎انقلاب سوشلسٹ ہو یا اسلامی انقلاب اپنے اصولوں پر قائم نہ رہے وہ انقلاب کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ ایرانی انقلاب جو شاہ کے خلاف شروع ہوئی عوام نے بڑی جرات کے ساتھ اس انقلاب میں اپنا کردار ادا کیا آخر تک لڑتے رہے اور اس انقلاب کو کامیاب بنایا ۔ شاہ جیسے کئی جابروں نے ایران پر حکمرانی کرکے عوام کا استحصال کرتے رہے تھے۔ لیکن اس انقلاب کے کامیاب ہونے پر عوام کے حصے میں کیا آیا عوام تو اپنے بنیادی حقوق کیلئے اس انقلاب میں شامل ہوئی تھی، جو ظلم و جبر شاہ نے عوام پر ڈھائے تھے استحصالی نظام ، کرپشن ، لوٹ مار ، تشدد ، بے روزگاری سے عوام کی زندگی عذاب بن گئی تھی انقلاب کے بعد امام خمینی کے اقتدار میں بھی وہی استحصالی نظام ، کرپشن ، لوٹ مار ، تشدد ، مہنگائی اور بے روزگاری عام ہوگئی جو تشدد شاہ نے ساواک کے ذریعے عوام پر کیئے تھے، وہی تشدد امام خمینی نے پاسدارانِ اسلامی کے ذریعے عوام پر ڈھائے۔