ہجوم کےسائے پے اکیلا میں – تحریر: حنیف بلوچ

501

”ہجوم کےسائےپہ اکیلا میں”

تحریر: حنیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بےوقت بارشوں کے بوندوں نے غمِ زندگی کو سیلاب کیا، آنکھوں نے خوشنودی سے نظارہ کرنے کا سلیقہ اپنے اردگرد کےلوگوں کو دیکھ کر آنکھ بہ نم تونہیں تھے لیکن جہانِ فانی نے گھرکے آنگن کے ماحول کو آلودہ کردیا۔ پچھلی رات، فجر تک الفاظ کے گھیرے میں تنگ صورت اور سیرت کا تقاضہ، غم ِعشق میں سر نوشت سب کچھ کسی مدت سے فراموشی کو یادوں کے کشتی پہ سوار، سمندرکے دل کو زھر پیتے پیتے جی رہاتھا کہ جینےکا بہانہ، بزدلی کی رونق کسی غریب، بے سہارے کا زینت نہ بن کرمثال قائم کرے۔ ویسےتو میرے چہرے کی بد صورتی اور زبان کا اندازہ لگانے والوں کا شکریہ جو مجھے شاعری تک محدود کرتے ہیں، کھبی کسی دوست ساتھی نے عشقِ لا حاصل کا کہانی میرے اپنے زبانی نہیں پوچھا اور میں بتانے سے قاصر رہا کہ جو ہوا نہیں اُسے یادوں کےسہارے رکھ ورنہ زمانے کے عجو بوں میں کبھی حماقت جیسوں کانام آئے تو زندگی تہمت لگانے کا ھنر اچھی طرح جانتاہے۔

بارش کے چند قطروں نے زمین کو میرے ساتھ بھیگو دینے کا آسرا نہیں کیا، اب کہ رات کے 3:00 بجنے والا ہے۔ چھت پر بیٹھ کر زندگی تاروں کے نمائش میں کسی اپنے کا نام نقش کرتے ہوئے، آنکھوں نے بیداری کی سِکت کھو کر تھکاوٹ حروفِ تہجی میں مگنھ گفلتی کا اندیشہ سِہر سکوتِ آبلہ پا دیوانگی کا سبق سیکھ رہاتھا کہ ہواؤں نے رُخِ رفتارکو تارتار کیا۔ رنجشیں عالم کے بے زوق دیواروں نے رحمت کا تانہ بانٹ کر لزتِ شمشیر کا ہدف کس کے کہنے پر گردنِ غریباں کے شہرگ سے پناہ مانگتا۔

قاتلوں کو قتل کرنےکا حکم نامہ شرافت کا شہکار میری دنیا ءِ دل کا نقاش آستین کا سانپ کہوں کہ مِہر وفا ءِ ہستی، جس مقام پر مجھے تماشائیوں کا تماشہ بننے سے ڈرکر زندگی کو موت کی بدعا دیے کر، آنسوؤں کا سیلاب سرئے بازار،ہجوم ئے محفل اقرارکے دامن سے دوپٹہ سرکنے کا شفا بخش نہ تھا۔ جس منافق سماج کا ساحر عالم دین، بزرگ ءُ برگزیدہ جو کبھی کسی موضوع کو سرِشام اپنے مزاحیہ مجلس کو خوشنود کرتے تھے، سب کے سب آنکھ بہ نم تسبیحوں کے گُنرو جو کبھی تھمتےنہ تھے، یوں لگا عشقِ سِحرا سمندر کا نظارہ بن کر دل کی آواز خداؤں کو خدائی کے شکنجے میں فرشتوں کو بھی حیران کرتے کرتے۔

خوابوں کو آرزوِ لقب جو مجھے صراطِ مستقیم والے نے فجر تک سونے نہیں دیا، دن کا وہی میں اور میرے ہجوم کے سایے پہ اکیلا میں۔