پنجگور اجتماعی قبر سے برآمد ہونے والی لاشیں لاپتہ افراد کی ہیں، پاکستانی فورسز نے لواحقین کو اطلاع دی۔
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے علاقے پنجگور سے 18 جولائی کو ایک اجتماعی قبر سے چار لاشیں ملی تھیں، جن میں سے ایک شخص کے بارے میں آج پاکستانی فورسز نے اس کے والد کو اطلاع دی کہ آپ کا بیٹا بھی اسی اجتمائی قبر میں دفن کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق 18 جولائی کو اجتماعی قبر سے ملنی والی لاشوں کی حالت انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے لاشیں پہچان میں نہیں آسکی تھیں، تاہم پنجگور سے 16 جون 2014 کو لاپتہ ہونے والے خیربخش بلوچ نامی نوجوان کے والد کے مطابق آج ان کو پنجگور ایف سی کیمپ میں بلا کر فرنٹیئر کور کے کمانڈنٹ نے بتایا کہ آپ کے بیٹے کو سات ماہ قبل قتل کرکے پنجگور درگِ دپ میں دیگر 3 لاپتہ بلوچ افراد کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفن کردیا گیا تھا۔
اس خبر کے بعد خیر بخش کے والدین نے اپنے آبائی گاؤں پروم کے علاقے دِز میں آج اپنے بیٹے کے لیئے فاتحہ خوانی کی۔
دی بلوچستان پوسٹ کو خیر بخش کے ایک قریبی رشتہ دار نے بتایا کہ تقریباۤ 6 یا 7 ماہ قبل فورسز کی حراست سے بازیاب ہونے والے ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ اس نے دوران حراست خیر بخش اور خدابادان کے رہائشی بختیار نامی ایک نوجوان کو دیکھا تھا۔
یاد رہے کہ لاپتہ خیر بخش بلوچ کے لواحقین کافی عرصے سے دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ ان کی بازیابی کے لیئے سراپا احتجاج تھے، اس حوالے سے خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فورسز کا لواحقین کو اس اطلاع کی وجہ کافی عرصے سے جاری ان کے احتجاج کو ختم کرنا تھا۔
واضح رہے بلوچستان میں اس سے قبل خضدار کے علاقے توتک سے اجتماعی قبر سے 169 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں جن میں سے صرف دو کی شناخت ہوسکی جو بلوچستان کے علاقے آواران کے رہائشی تھے جبکہ دیگر لاشین ناقابل شناخت تھیں۔
بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز سمیت دوسرے تنظیموں اور پارٹیوں نے توتک میں اجتماعی قبر سے برآمد ہونے والے لاشوں کو جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کی لاشیں قرار دی تھیں۔
واضح رہے ان تنظیموں کا موقف ہے کہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ بلوچ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کا الزام ہے کہ پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے ان افراد کو لاپتہ کرنے یا مار کر پھینکنے میں ملوث ہیں۔