مادرِ وطن اور قربانی
علی کچکول
دی بلوچستان پوسٹ
الٰہیاتی فلسفی کہتے ہیں کہ ” اگر مذہب کو زندگی سے خارج کی جائے، تو قومی ریاست خدا کی جگہ لے لیگی۔”
جس طرح کے بلوچ شاعر جی ۔ آر ملا کہتا ہے: ” مبارک ہو تمہیں ملا، تمہارا حج اور کعبہ۔۔۔ لیکن مجھے اپنے وطن سے، اپنی بینائی سے زیادہ محبت ہے۔” ( مبارک بیت ترا ملا تئی حج تئی کعبہ۔۔۔ منا چو دیدگا دوست ءِ منی ماتیں وطن ملا)۔
مزید سمجھنے کیلئے، ہمیں قربانی کا تصور “اسخلیئرماخیر” کی تحریروں میں بھی ملتا ہے، جو لکھتا ہے: “میں چاہتا ہوں کے میرے آزادی کا مقصد، مجھے ضرورت سے قریب تر کردے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا مقصدِ عظیم، مرنے کی چاہت کرنے کے قابل ہونا ہو۔”
ایک ازبک شاعر ازبکستان کے بارے میں کہتا ہے: “میری نسل اس سرزمین کی قدر سمجھیں، ظاھراً، لوگ ہمیشہ خاک میں بدلتے ہیں۔ یہ سرزمین ہمارے آباء کی باقیات ہیں، ہم اس قیمتی مٹی کیلئے خاک میں بدلتے رہے ہیں۔”
ریحان اور اسکے والد اسلم بلوچ کی قربانی، ابراہیم اور اسماعیل کی قربانی کی نشاطِ ثانیہ ہے۔ لیکن ابراہیم اور اسکے بیٹے اور اسلم بلوچ و اسکے بیٹے میں ایک بنیادی فرق ہے، ابراہیم اور اسماعیل مذہب کے نام پر قربانی پر تیار تھے لیکن اسلم اور اسکے بیٹے نے قربانی ایک عظیم مقصد اپنے مادر وطن کی خاطر دی۔
بلوچ اپنے پہاڑی جغرافیہ اور اپنے خون میں اس سرزمین کے حفاظت کیلئے مزاحمت کو لیئے، ایک نادرالوجود قوم ہے، جس کی وجہ سے بلوچوں میں قربانی کی ایک شدید روایت ابھر رہی ہے۔
قوم پرستی کبھی کبھار ہم سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہم اجتماعی مفادات کیلئے خود کو قربان کردیں، یہ قربانی عموماً رضاکارانہ طور پر اپنے وطن کی آزادی یا اپنے قوم کے دفاع کیلئے دی جاتی ہے۔ ریحان یا دوسرے تمام شہیدوں کی قربانی جنہوں نے اپنی جانیں قربان کردیں اور ان عورتوں و بچوں کی قربانی جو اذیت گاہوں میں تشدد سہہ رہے ہیں، بلوچوں کے پختہ عزم کا اظہار کرتی ہے۔ یہ ظاھر کرتی ہے کہ بلوچ کس حد تک اپنی قوم کیلئے جانے کو تیار ہیں۔
میری ذاتی رائے میں، مزاحمت کا چاہے جو بھی طریقہ کار ہو، بلوچ کو کسی صورت مزاحمت کے اس تسلسل کو آزادی تک ٹوٹنے نہیں دینا چاہیئے۔ بدقسمتی سے ہماری سینئر بلوچ قیادت نے ناکام پاکستانی پارلیمانی سیاست کو چن کر ہمیں بے تحاشہ نقصانات سے دوچار کیا۔ گذشتہ دن غوث بخش بزنجو کے برسی کے دن ریحان کے قربانی کے بعد، میں نے سوچا کاش کہ محترم بزنجو صاحب اور دوسرے سینئر رہنما قوم پرستی کو اس کے حقیقی روح کے مطابق جاری رکھتے، جو کہ خالص مزاحمت ہے۔ لیکن نواب خیربخش مری کے علاوہ ہماری اعلیٰ قیادت مزاحمتی تحریک سے دستبردار ہوگئی۔
میں قوم کے سامنے یہ واضح الفظ میں رکھنا چاہتا ہوں کہ ایک قومی ریاست کیلئے جدوجہد کے بنا کوئی قوم پرستی نہیں، باقی نام نہاد قوم پرست حقیقی معنوں میں قوم پرست نہیں کہلاتے، کیونکہ قوم پرستی کا معنی ہی قومی ریاست کیلئے قربانی دینا ہے۔ یہ بنیادی اصول ان تمام جماعتوں میں غائب ہے، جو خود کو قوم پرست کہتے ہیں لیکن پاکستان کی پارلیمانی سیاست کرتے ہیں، جو خود ہی فوجی تھانہ شاہی اور بدعنوانی کی وجہ سے ناکام ہوچکا ہے۔
ہمارے مادر وطن کو پاکستان اور چین اسکے وسائل اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بلوچوں کے منشاء و مرضی کے بغیر لوٹ رہے ہیں۔ بلوچوں کے قیمتی وسائل جیسے کے قدرتی گیس، کوئلہ اور سونا لوٹا جارہا ہے، حتیٰ کہ اب عام بلوچوں کی ملکیتیں تک سی پیک کی تعمیر کیلئے قبضہ کی جارہی ہیں۔ بلوچوں کو انکے آبائی گھروں سے نکالا جارہا ہے۔
بلوچ ان مظالم کے خلاف اپنی آواز ہمیشہ سے بلند کرتا رہا ہے اور مغربی قوتوں کو کئی سالوں سے ان نا انصافیوں سے آگاہ کرتا رہا ہے، لیکن اب تک ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ عالمی برداری کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے 1960 کے اعلامیے کے رو سے ہماری مدد کرے، جو تمام مقبوضہ قوموں کی آزادی تسلیم کرتی ہے۔
اس اعلامیے کے ایک شق کے مطابق ” لوگوں پر بیرونی جارحیت، محکومیت، استحصال بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے اور یہ امنِ عالم اور عالمی تعاون کے سامنے ایک رکاوٹ ہے۔”
ہماری تحریک اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہے لیکن پاکستان اس چارٹر کی خلاف ورزی کرتا رہاہے۔ پاکستان اور چین قومی سلامتی اور اور انسدادِ دہشتگردی کے نام پر ” لمبرگ پرنسپل” کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ لمبرگ پرنسپل کی آرٹیکل 64 اور 65 کا یہاں واضح طور پر خلاف ورزی ہورہا ہے۔
بلوچ تواتر کے ساتھ تمام عالمی اور علاقائی اداروں بشمولِ اقوام متحدہ کو بتاتے رہے ہیں کہ پاکستان نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے، جسے سی پیک کے مد میں چین کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اور یہ تمام جرائم قومی سلامتی اور انسدادِ دہشتگردی کے نام پر کیئے جارہے ہیں۔
اسی مد میں ایک ممتاز عالمی قانون دان ہیوگو گریوٹز کہتا ہے کہ ” اگر ظلم اس قدر نا قابلِ برداشت ہوجائے کہ ایک قوم اسکے خلاف اٹھ کھڑا ہوجائے، پھر کسی بھی عالمی قوت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس مظلوم قوم کا مدد کرے، جو مدد کیلئے پکار رہا ہے” عالمی برداری تک رسائی حاصل کرنے کی ہماری ساری جدوجہد کا مقصد انہیں بلوچستان سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ ان مظالم کے سامنے بند باندھ سکیں لیکن اب تک مغرب کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے بلکہ وہ اپنے اس ذمہ داری سے نظریں چراتے رہے ہیں۔
اب جبکہ عالمی ادارے ہماری فریاد نہیں سن رہے ہیں، پھر ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ بلوچ قربانی کا راستہ اختیار کریں۔
( کچکول علی ایڈوکیٹ انسانی حقوق کے ایک وکیل ہیں، وہ بلوچستان اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اور وزیر بھی رہ چکے ہیں، اب ان کا تعلق بلوچ نیشنل موومنٹ سے ہے)
نوٹ:۔ اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہو یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہوں۔