قومی شعور کا باب، بی ایس او آزاد۔ عابد جان بلوچ

501

قومی شعور کا باب، بی ایس اوآزاد

عابد جان بلوچ

 

بی ایس او آزاد کی اکیسوی کامیاب کونسل سیشن پر قائدین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس کامیابی پر ان لیڈران کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو اس پلیٹ فارم سے ایک عظیم مقصد کے لیئے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے۔ ان اسیران کو بھی دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں، جو اس تنظیم کی ترقی اور نوجوانوں میں قومی بیداری کو اجاگر کرنے کی راہ پر چلتے چلتے آج دشمن کے ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز اذیت برداشت کررہے ہیں۔ ان پُر آشوب حالات میں تنظیم کی سرگرمیاں کامیابی سے سرانجام دینے پر محترمہ کریمہ بلوچ، کمال بلوچ اور باقی مرکزی کابینہ کو بھی انقلابی جذبوں کے ساتھ سلام۔

بی ایس او کا وجود،26 نومبر 1967، سے لیکر 2000 تک مختلف شخصیات کے ہاتھوں بیشمار اتار چھڑاؤ کا شکار رہا۔ شروع کے ادوار میں اس تنظیم کی باگ دوڑ ایسے لیڈران کے ہاتھوں میں آگئی جو اپنے طور طریقوں سے تنظیم کو زیر استعمال لائے۔ کبھی اس طلباء تنظیم کو ماس پارٹیوں کے سہولت کار کے طور پر استعمال میں لائے، تو کبھی نواب و سردار کے حکم کی تکمیل کیلئے استعمال کرتے رہے۔ ایک بڑی مدت تک پارلیمنٹ پرستوں کا سایہ اس طلباء تنظیم پر پڑی رہی۔ جو بھی چیئرمین منتخب ہوتا وہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اس تنظیم کو بروئے کار لاتا۔ ان حرکات کا ادراک ہمیں اس بات سے ہوتی ہے کہ پہلے منتخب ہونے والے چیئرمین کا جھکاو نیشنل عوامی پارٹی کی جانب ہوتی ہے۔

انہیں لیڈروں کے ہاتھوں بی ایس او مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوتا گیا۔ بالآخر 2000 کے بعد باقاعدہ بی ایس او کو باقی ماس پارٹیوں کے چنگل سے آزاد کرکے ایک آزاد طلباء تنظیم بنایا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک بی ایس او آزاد ایک خودمختار طلباء تنظیم کی حیثیت سے اپنا وجود برقرار رکھا ہوا ہے۔ ہزاروں طلباء اس تنظیم سے فارغ ہوکر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی پلیٹ فارم سے سینکڑوں طلباء قومپرستی کا شعور حاصل کرکے، اسے اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔

آج بی ایس او آزاد کی تاریخ یقیناًاس سطح تک پہنچ چکی ہے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ بی ایس او آزاد قومی شعور کا باب ہے۔ اسے باب سے سینکڑوں بلوچ نوجوان قومی سوچ و فکر کو اپنا کر اپنے سرزمین کی آجوئی کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں۔ بی ایس او اپنے باکردار کیڈرز کے بدولت آج دنیا میں ایک مثالی طلباء تنظیم کا روپ اختیار کرچکی ہے۔ اس تنظیم کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ کے اوراق پر اس پلیٹ فارم کے کئی روشن ابواب نقش ہوکر، آج بھی بلوچ طلباء کیلئے روشن راہ کا تعین کرتے ہیں۔ ان روشن ابواب میں ایک باب شہید فدا بلوچ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ شہید حمید بلوچ، شہید اسلم بلوچ، شہید مجید بلوچ، شہید شفیع بلوچ، شہید کامریڈ قیوم بلوچ ، شہید قمبر چاکر بلوچ، شہید رضا جہانگیر بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ شہداء کے کردار اور قربانی ہمیشہ بلوچ نوجوانوں کی تربیت اور قومی شعور کا سبب بنتا رہے گا۔

بی ایس او آزاد نے قومی شعور کا ایک ایسی جال بچھایا ہوا ہے، جس سے قبضہ گیر دشمن حواس باختہ ہوکر، اس کے مرکزی لیڈران سے لیکر ایک عام کارکن تک کو غیر قانونی اور دنیا کی تمام انسانی حقوق کے قوانین کو پامال کرکے اغواء کرتا رہا ہے اور اپنی انسانیت کش ٹارچر سیلوں میں اذیت دے کر انہیں شہید کرتا رہا ہے۔ ان کے مسخ شدہ لاشیں میدانوں، صحراؤں، پہاڑوں اورروڈ کناروں سے ملے۔ لیکن یہ تو ایک کائنائی سچ ہے کہ قومی جذبے کو کوئی طاقت کچل نہیں سکتا۔

کئی روشن کرداروں کو دشمن نے اپنے ناکام حرکات سے معدوم کرنے کی کوشش کی لیکن دنیا نے دیکھا، ان روشن کرداروں نے شہید ہوکر بھی قومی شعور پھیلا دیا اور پھیلا رہے ہیں اور تاریِخ انسانیت میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے ہیں۔ ان کے کردار تاقیامت نوجوانوں کو خواب غفلت سے جگاتے رہیں گے۔ ان زندہ کردار فرزندوں کے تو ہونٹوں پر ہر وقت یہی صدا تھی کہ قبضہ گیر ہمیں موت دے سکتا ہے لیکن ہماری سوچ کو ختم نہیں کرسکتا۔ ان آنکھوں کو تو نکال سکتا ہے لیکن جو خواب ان آنکھوں نے دیکھیں ہیں، اس کو نہیں روک سکتا۔

بی ایس او آزاد کے ممبران آج بھی تعلیمی میدان میں اپنے کارناموں اور صلاحیتوں سے اعلیٰ مقام تک پہنچ رہے ہیں۔ بی ایس او آزاد کے کارکن ریاست کے غیر قانونی اغواء اور پھر مسخ شدہ لاش گرانے کے غیر انسانی عمل سے بچنے کیلئے ایک گمنام کارکن کی حیثیت سے اپنے تنظیمی سرگرمیاں اور تعلیم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں طلباء کی رہنمائی کرنا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی تگ ودو میں ہیں۔

نئے منتخب کابینہ پر بلوچستان کے طلباء کے نگاہیں اس امید کے ساتھ ہیں کہ جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ اس تنظیم کو طلباء کے بالائی اور قومی جوش و جذبے کو ابھارنے کیلئے جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ اس مقابلے کے دور میں طلباء کو تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا ہنر سکھا کر ان کی رہنمائی کریں گے۔