فکرِ نواب شہید آج بھی زندہ ہے۔ بی آرایس او

182

شہید نواب اکبر بگٹی کے بارویں برسی کی مناسبت سے بی آر ایس او کے جانب سے جرمنی میں سیمینار کا انعقاد

بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ شہید نواب اکبر خان بگٹی کی بارویں برسی کے مناسبت سے بی آر ایس او کی جانب سے جرمنی میں تین روزہ آگاہی مہم اور سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ بی آر ایس او کی جانب سے جرمنی کے شہر کوٹبس میں تین روزہ آگاہی مہم چلائی گئی جس میں بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا گیا جبکہ آگاہی مہم کے دوران بڑی تعداد میں جرمن شہریوں کو بلوچستان میں پاکستانی جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہی دی گئی۔ مہم کے دوران ہزاروں کی تعداد میں جرمن زبان میں پمفلٹس بھی تقسیم کیئے گئے جن پر بلوچستان کی صورت حال کے بارے میں معلومات درج تھی جبکہ آگاہی مہم کے بعد بروز اتوار کو کوٹبس شہر میں ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا جس کا مقصد ڈاڈائے قوم شہید نواب اکبر خان بگٹی کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔

سیمینار سے بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی رہنما نود بلوچ، خالد لال، سفیان بلوچ، بلوچ ریپبلکن پارٹی جرمنی چیپٹر کے نائب صدر عادل بلوچ، محمد بلوچ، عطا بلوچ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکن اصغر بلوچ اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکرٹری عبداللہ عباس نے خطاب کیا۔

رہنماؤں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نواب اکبر بگٹی نے بلوچ قوم کی ننگ و ناموس، بلوچ گلزمین اور قومی بقاء کے لیے خود کو قربان کیا۔ ان کے خدمات کو ہمیشہ سنہرے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ انقلابی باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن ان پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل لیکن شہید اکبر خان بگٹی نے پیران سالی میں نہ صرف ان پر عمل کیا بلکہ ان کے عمل نے بلوچستان بھر کے نوجوانوں کو خواب سے بیدار کیا۔

شہید نواب اکبر خان وہ شخصیت تھے جنہوں نے پیران سالی اور ضعیف العمری کے باوجود بلوچ گلزمین کے ہر ایک حصے کا دفاع کرتے ہوئے پہاڑوں کا رخ کیا اور دشمن قوتوں کا مقابلہ کیا۔ حالانکہ 80 سال وہ عمر ہوتی ہے جب ہم بستر پر آرام کرتے ہوئے اپنی زندگی کے باقی پل گزارنا پسند کرتے ہیں، لیکن شہید نواب اکبر خان نے ایک نواب ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام تر آسائشوں کو چھوڑ کر ہر طرح کے تکالیف برداشت کرتے ہوئے بلوچ گلزمین کی آزادی کے لیے جامِ شہادت نوش کیا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم بلوچستان سے ہزاروں کلومیٹر دور جرمنی کے مختلف شہروں سے اکھٹے ہوکر نواب صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

مقررین نے مزید کہا کہ شہید نواب بگٹی بہادری کی ایک مثال ہے، شہید نواب بگٹی نے نہ صرف دشمن قوتوں کا مقابلہ کیا بلکہ اپنے وسیع سیاسی و علمی تجربات سے سالوں تک بلوچ قوم کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ہوا میں ہاتھ لہراتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ وہ بلوچوں کو ایسے نشانہ بنائیں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا جبکہ آج وہ فوجی جنرل خود اپنے ملک سے درپدر ہے، دوسری جانب شہید نواب صاحب کو دنیا بھر میں سہنرے الفاظ میں یاد کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک پیغام ہے ان تمام بیمار زہنیت کے عامل پاکستانی جرنیلوں کے لیے کہ بلوچ قوم اپنی قومی بقاء کے لیے اپنی سروں کی قربانی دینے سے کھبی نہیں کترائے گی اور فوجی آپریشن، جبری گمشدگیاں و مسخ شدہ لاشیں بلوچوں کو ان کے منزل کے حصول سے نہیں روک سکتے ہیں.

سیمینا ر کے مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستانی آرمی نے شاید یہ سوچھا ہوگا کہ نواب صاحب کو شہید کرنے کے بعد بلوچستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا جائے گا اور بلوچوں کو ہمیشہ کے لیے غلام بنانے کا ان کا منصوبہ کامیاب ہوجائے گا لیکن وہ بھول چکے تھے کہ شہید کا نظریہ تب تک بلوچ قوم کے ہر فرزند کے دل و دماغ میں جگہ کر چکا تھا۔ شہید اکبر خان کو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوئے آج 12سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن شہید کا نظریہ بلوچستان بھر میں پھیل چکا ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے رہنماوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی طاقتوں، انسانی حقوق کے اداروں اور اقوامِ متحدہ کے دوغلہ پن کی وجہ سے آج بلوچ قوم انتہائی مشکلات کا شکار ہے، ہمارا سامنا ایک ایٹمی طاقت سے ہے جبکہ دوسری جانب ہماری آبادی کا 80 فیصد سطح غربت سے بھی نیچھے زندگی گزار رہی ہے۔ اگر مذکورہ ممالک اور ادارے نیک نیتی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے تو آج بلوچ قوم سمیت تمام محکوم و مظلوم اقوام کی حالت مختلف ہوتی، بین الاقوامی طاقتوں اور انسانی حقوق کے اداروں کو اپنی دوغلہ معیار کو ختم کرتے ہوئے پاکستانی ریاست کو بلوچوں کی نسل کشی کے لیے جوابدہ ٹہرانا ہوگا اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فوری طور روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔