شہید ریحان جان کا عظیم کام – کمال بلوچ

412

شہید ریحان جان کا عظیم کام

کمال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جہاں انسان کا ذہن کچھ مدت کیلئے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، اگر یہ کہیں انسان ہکا بکا رہ جاتا ہے یا ایک کیفیت سی طاری ہو جاتی ہے اور چند ساعت کیلئے خاموش رہ جاتا ہے، شاید کچھ سوچ سکیں یا کچھ اور شہید ریحان جان ایک ایسے وقت میں وہ کام کرگئے جو سب کو حیر ان کر گیا۔ بہت سے سوالات بھی باقی چھوڑ گیا، اب ہر ایک اسی سوچ میں گم ہے کہ کیا ہو گیا؟ کیسے ہو گیا؟ لیکن جو ہوا، وہ حوصلہ مند کام کرگئے، وطن کا قرض اتار کر خو د امر ہو گئے، میں ذاتی طور پر ایسے کاموں کو حوصلہ مند سمجھتا ہوں، جس سے بہروں کو سنائی دے، یہ حقیقت ہے جنگ میں نقصانات اور فائدے کے بارے میں زیادہ سوچا جاتا ہے، جنگ اس لئے لڑی جاتی ہے تاکہ دشمن کو کمزور کرکے فتح حاصل کی جاسکے، لیکن کبھی جنگ میں زیر بھی ہو سکتے ہیں، لیکن اسے ناکامی نہیں سمجھتے ہیں، ناکامی اُسے مانا جاتا جہاں مایوسی پھیل جائے، کسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے لانگ ٹرم پالیسی کا ہونا لا زمی ہے۔ کیفیتی بنیادوں پر سیاست کرنے والے سیاسی ورکر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتے ہیں، امید سے جنگ جیتی نہیں جاتی بلکہ امید کے ساتھ جنگی لڑی جاتی ہے، مضبوط پالیسی اور مضبوط حکمت عملی کے بنیا د پر اپنے مقصد کو حاصل کی جاتی ہے۔

بلوچ قومی تحر یک آزادی اس وقت کو نسے مقام پر ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں۔ یہاں سمجھتا ہوں، یہی کہنا مناسب ہوگا اس جد وجہد میں انا کو قتل کرنا ہوگا اور اصولی سیا ست کے بارے میں پرچار کرنا چاہیئے کیو نکہ اصول ہی لوگوں کو راہ راست پر لا نے کا بہتریں ذریعہ ہے، لیکن اپنے اور غیر دونوں سوال کرتے ہیں، انکی نو عیت کیا ہے؟ یہ اپنی جگہ، مگر عمل کے بعد ضر ور یہ سوال کیا جاتاہے، کیو ں اس طر ح کیا گیا؟ خود کو نقصان دے رہے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ اب جو کارنامہ شہید ریحان جان نے ادا کی ہے، وہ قابل داد ہے لیکن مجھے یقین ہے سوالات کی کمی آج بھی نہیں اور کچھ اس طرح کے سوال کر رہے کہ کم عمر ی میں کیو ں یہ کر گئے؟ زندہ رہتا مزید کچھ کرسکتا تھا۔ یہ کارنامہ کسی بڑے کام سے کم نہیں، انہوں نے ایک عظیم رتبہ حاصل کیا اور میر ے خیال میں انقلا ب لانے میں عمر کا نہیں شعور کا پیمانہ لیا جاتا ہے، جو حقیقی اور علمی بنیادوں پر پو را اترتا ہے، جب کو ئی کم عمری میں کو ئی اور کام کرے تو قابل داد، لیکن اگر کو ئی ریڈیکل انقلابی فیصلہ کرے تو سوال؟

جس طر ح 22سال کے انڈین نو جوان ہیرو بھگت سنگھ اپنے ساتھو ں کے ہمراہ انڈین پا رلیمنٹ میں بم گراتا ہے، تاکہ ہم انقلا ب زند ہ باد کے نعرے کو اپنے عوام تک پہنچا سکیں، اُسے بھی یہی کہا گیا کہ جذباتی تھا، یہ کام کم عمری میں کیا گیا، لیکن انہوں نے یہی کہا تھا کہ میں شعوری طور پر یہ سب کچھ کر رہاہوں، اس سے پیشماں نہیں ہوں، بھری عدالت میں ایک دفعہ پھر انقلاب زندہ باد کا صدا بلند کیا، یہی صدا قومی بقا ہو گئی، وہی کامیابی کی طرف گامزن ہو ئے تھے۔

کچھ ایسے سوال ہما رے سامنے مختلف سرکلوں کی جانب سے سننے کو ملتےہیں، وہی سب کچھ، وہی سوالات جو بھگت سنگھ اور انکے ساتھیوں پر کئے جاتے ر ہے، یہاں بھی وہی سوال جنم لے رہے ہیں کہ ہر نئے واقعے کے ساتھ سوال پیدا کیئے جاتے ہیں، اس سے مراد نہیں وہ حقیقت پر مبنی رہے لیکن ہمیں اپنے سوچوں کو وسیع کر نا ہو گا کہ دشمن کو بھا گنے کیلئے سب سے پہلے تو اپنے اندر انقلابی اور شعوری سوچ پیدا کرنا چاہیئے، پیدا کردہ سوال کے بدلے میں کام نوعیت اور اہمیت کو سمجھیں تاکہ حل کی طرف گامزن رہیں۔

11اگست کو چینی انجنیئروں پر نو جوان، با شعور ریحان جان وہ کام کرگئے کہ ہر طر ف صرف اُسی کا چرچہ ہو رہا ہے، خود کو قربان کرگئے ایک عظیم مقصد کو سر انجام دینے کیلئے، لیکن دوسری طر ف بھی سوالات کی کمی نہیں کہ کیو ں بلوچ خود کش کررہےہیں، دنیا بلوچ تنظیموں کو دہشت گر دکہیں گے، ایک بات ہمیں ذہن نیشن کرنا چاہیئے، جب تک ہم کمزور ہیں، ہمیں جو بھی نام دیں کچھ فرق نہیں پڑتا، مگر طاقت کے سر چشمے کو کو ئی کچھ نہیں کرسکتا ہے، اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ انسانی حقوق کے تنظیم ہمارے لیئے کچھ الفاظ بول سکتے ہیں، لیکن آزادی دلا نہیں سکتے، جب ہم طاقتور ہونگے، عوامی حمایت کے ساتھ اپنے دشمن کو اپنے سر زمین سے بے دخل کریں گے، تو یہ تما م انسانی حقوق کے ادارے کام دیتے ہیں۔

یہ قطعاً میر ا مقصد نہیں کہ انسانی حقو ق کے ادارے کچھ نہیں کہیں، مگر حقیقت یہی ہے دشمن کو اپنی سر زمین میں کمزرور کر یں تو ہر طاقت متو جہ ہو گا، دنیا مجبور ہوگا کہ وہ اس سرزمین میں بسنے والے مظلوم عوام کے لیئے کچھ بولیں، لیکن اس حقیقت کوبھولنا نہیں چاہیئے کہ دنیا کے اپنے مفادات ہیں، اُس وقت تک مفادات نہیں رہے، تو وہ متو جہ نہیں رہے گا، انسانیت کے دعویدار تو بہت ہیں، یہ انسانی حقو ق کے تنظیم دراصل ریاست کے کیئے ہوئے بہت سے چیزوں کو چھپانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔

1948، 2000,1973 کے بعد بلوچستان میں کیا کچھ نہیں ہوا ہے، پاکستانی فو ج کی درندگی کی کمی نہیں رہی ہے، انسانی حقوق کے خلاف ورزی سرعام ہورہی ہے، اِس حوالے سے کسی انسانی حقوق کے تنظیم کو کچھ فرق پڑا ہے، ضرور انکے دفتری ریکارڈ میں ہو نگے، اس لیئے یہ کہنا منا سب ہوگا یہ ادارے گناہوں کو چھپانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں، حقیقت اسی پر مبنی ہے، ہمیں اپنے جدو جہد میں مزید تیزی لانا ہوگا، ورنہ یہ استحصالی ممالک ہمارا خوں چوسنے میں پیش پیش رہینگے۔

چائنا کا مثال ہما رے سامنے ہے، بلوچستان میں جس طرح سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پا کستانی فو ج کو ہر طرح کی جنگی مدد کر رہا ہے، اوربلوچ انسرجنسی کو کاونٹر کرنے کیلئے چائنا ہرطر ح کی مدد پا کستا ن کو دے رہا ہے، اور مشتر کہ بلوچ نسل کشی میں ایک ساتھ ہیں، لیکن کسی انسانی حقو ق کے تنظیم نے کچھ کہا ہے؟ پاکستان اور چائنا انسانی حقوق کے خلاف ورزی کر رہے ہیں، سی پیک بنانے کےلیئے لاکھو ں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جو درپدری کی زندگی بسر کر نے پر مجبور ہیں، کیا کسی کو معلوم نہیں ہے کہ بلوچ کس طرح بدحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ میرے خیال میں سب کچھ جان کر بھی سب انجان ہیں۔

ریحان جان وہ کا م کرگئے جو وقت کی ضرورت تھی، جو ہر اس ماں کا صدا ہے، جس کے لخت جگر، انکی سرمایہ کاری کی وجہ سے دشمن کے بلیک ہول میں غائب ہوئے ہیں، انکی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔

اب بحث پر چلے جائیں اور دیکھیں کہ دنیا میں کتنے ایسے خود کش ہو ئے ہیں، جو قومی جدوجہد کے لئے ہو ئے ہیں؟ معلومات کے لئے اچھی بات ہے، تاملوں نے کتنے خود کش کیئے اور کرد جنگجوؤں نے کتنے خود کش کیں ہیں، لیکن میں اپنے بامساروں کا ذکر کرتا ہوں جو اس وقت اپنے وطن کیلئے عظیم کام کرگئے ہر جوان جو اپنی سر زمین کے دفاع میں مثبت کر دار ادا کرتا ہے، ہر نوجوان پر فرض ہوگا، جو یہ سمجھتے ہیں، ہم اپنی سرزمین کے مالک خود ہیں، تو اپنی سوچوں میں تبدیلی لائیں، جد وجہد کے حقیقی مقصد کو سمجھیں، شہید مجید بلوچ، شہیدحمید بلوچ، شہید درویش جان اورشہید ریحان جان کا انتحاب کیا ہوا راستہ دشمن کے استحصالی ٹو لی کو کمزور کرسکتا ہے، موت کو ایک نام دیں، اپنے نام کو تاریخ کے سنہری الفاظ میں لکھ ڈالیں، اس کیلئے کوئی بڑے فلسفے کی ضرورت نہیں، اپنے اندر کا احساس اور شعورکو بیدار کریں اور یہ بھی کہ ہمارے تنظیموں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اُس پر مزید غور کریں کہ ہمیں کامیابی کا سہرا کس طرح نصیب ہوگا۔ قومی جد وجہد برائے قومی آزادی کا کامیا ب ہونا انسانیت کی سر بلندی ہو گی۔