شہید ریحان اسلم، قربانی کی نئی تعبیر
تحریر: سنگر ءِ استال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کی تحاریک میں بہت قربانیاں ہو چکی ہیں، جیسا کہ آپ نے سنا ہوگا کہ انقلابِ فرانس سے پہلے 3 فیصد ظالم یعنی حکم دینے والےاور 97 فیصد مظلوم جو حاکم کے کہنے کے بغیر سانس تک نہ لے سکتے تھے، انکا جینا اور مرنا تک بھی بادشاہوں کے حکم پر ہوا کرتا تھا، اسی طرح روس کے زار ایک خاندان ہونے کے باوجود پوری قوم پر حکمرانی کرتے تھے۔ دنیا کے جتنے بھی آزادی پسند تحاریک گذری ہیں، ان میں ظالم تعداد میں آٹے میں نمک کی مانند ہونے کے باوجود پوری اقوام پر قبضہ کرتے تھے۔ انہی مظلوم قوموں میں ایسے لیڈروں نے جنم لیا، جہنوں نے اپنا جینا، مرنا، محبت، عشق، زندگی سب کچھ اپنے قومی آزادی اور اپنے آنے والے مستقبل کیلئے قربان کردیا اور ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔ جن میں چی گویرا، بھگت سنگھ ، فیڈل کاسترو، لینن اور کارل مارکس جیسے لیڈر سر فہرست ہیں۔
اب میں ریحان جان کی قربانی کس طرح بیان کروں، ریحان کی قربانی کو کیا نام دوں، سمجھ نہیں آتا ریحان کی قربانی استاد اسلم کی محنت ہے، یااسکی قربانی کو اسکی بہادر ماں کے نام کروں، جس نے ریحان جیسا دلیر بیٹا پیدا کیا، یا اسکی قربانی کو عشق مادر وطن کا نام دوں۔ پھر ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریحان کی عمر اتنی بھی نہیں تھی کہ استاد اسلم کی محنت اُسے اتنا پختہ بنا دے، بہادر تو بہت دیکھے ہونگے، اس عمر میں اتنی بہادری اور جوان مردی، ریحان جیسا بہادر شاید برسوں میں پیدا ہو۔
جتنا بھی سوچوں، جتنا بھی لکھوں، شاید تھک جاؤں، ہو سکتا ہے کہ قلم کی سیاہی بھی ختم ہو جائے، لیکن ریحان کی قربانی بیان کرنا، یا لکھنا ممکن نہیں۔ آخر اسکی قربانی کو کیا نام دوں؟ ریحان نے تو چی گویرا، لینن، بھگت سنگ اور دوسرے انقلابوں سے بڑھ کر قربانی کو ایک نیا نام دے دیا۔
ریحان جان شہید حمید کی طرح اپنے مادر وطن کیلئے بے حد محبت میں تھا، شہید حمید نے جس طرح پھانسی کے پھندے کو چوم کر اپنی شہادت اپنے مادر وطن بلوچستان کے نام کر دیا۔
ریحان جان نے شہید مجید اور شہید درویش جان کی طرح اپنے مادر وطن کیلئے فدائی حملے کو مسکراتے چہرے سے قبول کیا، اور یہ ثابت کر دیا کہ وطن مادر بلوچستان کی خاطر ہم نے قربانی دیا ہے، قربانی دے رہے ہیں اور اپنے مادر وطن کی آزادی تک دیتے رہینگے۔
“ تو پہ کُشگ دستان مدار “
“ما ہم سراں بستگ کفن”
قربانی دینے کیلئے تو حضرت ابراہیم تیار تھے، لیکن وہ تو ایک حکم پورا کرنے کیلئے، اسُے پتہ تھا کہ میرے بیٹے اسماعیل کی میت میرے سامنے ہوگا، پھر بھی ابراہیم کے ہاتھ کانپ گئے تھے۔ ہزاروں سلام استاد اسلم اور لمہ یاسمین کو جہنوں نے ریحان جان کو بلوچستان کا مقدس بیرک پہنا کر، اپنے مادر وطن کے نام خدا حافظ کہہ کر رخصت کرلیا، ان کو پتہ تھا کہ ریحان جان کی میت تک انکو نہیں ملے گی، عشق وطن بھی عجیب ہے۔
خدا نے اگر نبوت کا دروازہ بند نہ کیا ہوتا، تو میں ریحان کو اس دور کا نبی مانتا۔ ریحان نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم خدا کی زمین پر کسی ظالم کی خدائی نہیں مانتے۔ اور اپنی مادر وطن کی خاطر ہم ایسی قربانی دے سکتے ہیں کہ قربانی کا نام بھی شرمندہ ہو جائے۔
دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔