امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے شام کی خانہ جنگی میں روس کے عمل دخل پر سخت تنقید کی ہے جب کہ امریکی محکمہ خارجہ ماسکو پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ شام کی حکومت کو اپنے لوگوں پر مزید کیمیائی حملے کرنے سے روکے۔
جم مٹیس نےنامہ نگاروں کو بتایا کہ شام میں جنگ کو سات سال ہو گئے ہیں اور ابھی تک یہ ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ روس نے شامی صدر بشار الاسد کی ظالم حکومت کو برقرار رہنے میں مدد دی ہے۔
میٹس کا کہنا تھا کہ ان کا وہاں کوئی کام نہیں ہے اور ہمارا مقصد شام کی خانہ جنگی کو جنیوا کی کارروائی کی طرف لے جانا ہے، تاکہ شام کے عوام ایک ایسی نئی حکومت تشکیل دے سکیں جو اسد کی زیر قیادت نہ ہو۔
اب جب کہ باغی ملک کے مغرب میں روسی اور ایرانی مدد کے حامل شامی فوجیوں سے لڑ رہے ہیں، امریکہ مشرق میں داعش کے خلاف مقامی فورسز کی مدد کر رہا ہے۔
اور روس کی جانب سے اس ہفتے کلورین کے ایک اور حملے کے اشارے کے بعد مٹیس نے یہ واضح کر دیا کہ شام میں کوئی اور کیمیائی حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
امریکی وزیر دفاع جم میٹس کہتے ہیں کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ امریکی محکمہ خارجہ اس حملے کو روکنے کے عمل میں روس کو شامل کرنے کے لیے اس کے ساتھ بھر پور طریقے سے رابطے میں ہے۔
اب جب کہ داعش خطے میں اس علاقے کے، دو فیصد سے بھی کم حصے کو اپنے پاس برقرار رکھنے کے لیے لڑ رہی ہے جس پر اس کا کبھی کنٹرول تھا، صدر ٹرمپ نے سال کے شروع میں امریکی فوجیوں کو شام چھوڑ دینے کے لیے کہا تھا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے، ہمیں داعش کے خلاف بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ ہم کسی کے خلاف بھی فوجی طور پر کامیاب ہوں گے لیکن کبھی کبھی وطن واپسی کا وقت آ جاتا ہے اور ہم اس بارے میں بہت سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔
لیکن میٹس نے کہا کہ ابھی بہت کام باقی ہے جس میں دریائے فرات کی وادی میں داعش کو شکست دینا اور مقامی فورسز کو اپنی سیکیورٹی پورے طریقے سے خود سنبھالنے کی تربیت دینا شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر مقامی فورسز اپنی سیکیورٹی برقرار رکھنے کے قابل ہیں تو ظاہر ہے ہم اس وقت ان کی اہلیت کے مطابق اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر سکتے ہیں تاکہ داعش کی واپسی کو روکا جا سکے لیکن اس کا انحصار اس مسئلے کے حل کی تلاش پر ہو گا جو اسد نے پیدا کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شام کے عوام کے ذریعے اقوام متحدہ کے اس عمل کے تحت سامنے آنا چاہیے، جو ابھی تک تشدد روکنے یا کسی نئی حکومت کے قیام میں ناکام ہو چکا ہے۔