بی ایل اے کےترجمان جئیند بلوچ نے بی ایل اے کے سینئرکمانڈ کونسل اورآپریشنل کور کمیٹی کیجانب سے جاری کردہ اپنے پالیسی بیان میں کہا ہے کہ کل آزاد بلوچ نامی ترجمان کی طرف سے جاری بیان انتہائی شرمناک اور قابل افسوس ہے، یہ امر آج پوشیدہ نہیں رہا کہ شہید ریحان اور شہید درویش جیسے حملوں کی صلاحیت اور حکمت خودساختہ ہائی کمان کے دسترس میں نہیں، لیکن انکی طرف سے شہید ریحان جان کے حملے کی مخالفت اور اس سے لاتعلقی سرکاری بیانیئے کی تصدیق ہے، گو کہ خودساختہ ہائی کمان اور اسکے ٹولے کا ہمیشہ سے سرکاری بیانیئے کی تصدیق کرنا وطیرہ رہا ہے۔ مجید بریگیڈ کے بانی اوراسکے ذمہ داران تنظیم کے اندر تنظیمی پالیسوں کے تحت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، چینی انجئنیروں پر حملہ اس بات کی تصدیق ہے اور مستقبل میں بھی بیرونی سرمایہ کاراور ریاستی ادارے مجید بیرگیڈ کے جان نثاروں کےاہداف ہونگے۔ مجید بیرگیڈ کےلیئے آزاد نامی شخص کے دعوے مضحکہ خیز ہیں۔
ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ خودساختہ ہائی کمان اور ترجمان آزاد کے نام سے پچھلے کچھ عرصے سے تسلسل کے ساتھ جو شرمناک بیانات جاری کیئے جارہے ہیں، انکا ایک پس منظر ہے ماضی میں تنظیم کو قیادت کے حوالے سے بحران کا شکار کرکے دولخت کیا گیا، یو بی اے کا تنازعہ پیدا کرکے جنگ کی گئی، دیگر آزادی پسند تنظیموں سے اختلافات کےلیئے جواز پیدا کرکے تنظیموں کی سیکورٹی اور انکے قیادت پر کردار کشی کے حوالے سےغیر اخلاقی اور غیر سیاسی و غیر انقلابی طریقوں سے حملے کیئے گئے، تنظیم کے اندر اداراجاتی ساخت کی راہیں مسدود کرکے، تنظیم پر شخصی اجارہ داری قائم کرنے کی سعی کی گئی، اور اسی شخصی اجارے کو تنظیم و تحریک پر حاوی کرنے کیلئے، یکطرفہ متنازعہ فیصلے تنظیمی ساتھیوں پر مسلط کرکے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرایا گیا اور بدقسمتی سے اس وقت بھی ایسا کرنے کےلئے تنظیمی اثر رسوخ کا بے دریغ غلط استعمال کیا گیا۔
بداعتمادی کی ایک ایسی فضاء پیدا کی گئی، جو تحریک کےلیئے کسی صورت سود مند ثابت نہیں ہوا۔ دشمن نے بھرپور فائدہ اُٹھاکر بلوچ عوام میں تحریک کے حوالے سے بدظنی اور مایوسی کو ہوا دی اور دوسری طرف ریاستی ظلم و جبر میں اضافہ کردیا گیا۔ بدترین نتائج سامنے آنے کے بعد تنظیم کے اندر یہ بات واضح طور پر محسوس کی گئی کہ تنقید، اصلاح اور اصول و ڈسپلن کے نام پر ہونے والے تمام اقدامات کا مقصد سیدھی طرح سے خودساختہ قیادت کےلیئے نواب خیربخش مری سمیت دیگر تمام آزادی پسند ساتھیوں کوبلیک میل کرکے ان پردباؤ ڈالنا تھا، تنظیم کے اکثریتی ساتھیوں نے ایسے تمام اقدامات کی مخالفت کی اور معاملات کو بہتر کرنےاور اعتماد کی بحالی کےلئےعملی طور پر کام کرنے پر زور دیا اور ادارہ سازی اور تنظیم کی تشکیل نو پر زور دیا۔ تنظیمی ساتھیوں کی اکثریت اس بات پر قائل تھے کہ اب تنظیم کو شخصی بالادستی اور غیر تحریری فردی مزاج جسے اصولوں کا نام دیا جانے لگا، کے ساتھ آگے نہیں چل سکتا اور حقیقی اداروں کا قیام وقت کی ضرورت ہے، لیکن خودساختہ ہائی کمان نے اکثریتی ساتھیوں کو نظرانداز کرنا شروع کیا اور شخصی وفردی اجارہ داری قائم رکھنے کےلئے، بدقسمتی سے وہی غیر اخلاقی حربے تنظیمی ساتھیوں پر بھی استعمال کرنا شروع کردیا اور تنظیم کے اندر کچھ نااہل اور باہر کے کچھ غیر متعلقہ افراد کا ذاتی ٹولہ تشکیل دے کر تنظیمی معاملات میں بغیر کسی جواز کےمداخلت کرنا شروع کردیا اور ذمہ داران کو دیوار سے لگانے کی کوششیں تیز کرکے تنظیم کو ایک اور بحران کا شکار کردیا۔
ضد ،انااور ہٹ دھرمی کی حدیں پار کی گئیں، اتنا سب کچھ سہنے کے باوجود ساتھیوں نے مسائل کو حل کرنے کےلئے تنظیم کے اندر تنظیمی و دستیاب طریقہ کار پر زور دیا، لیکن بدقسمتی سے ضد و ہٹ دھرمی میں تنظیمی راز اور سیکورٹی کو بالا طاق رکھتے ہوئے تنظیمی ترجمان کے نام پر مسائل کو اخبارات کی زینت بنا کر دروغ گوئی کا سہارا لیا گیا اور بلوچ عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی گئی اور دشمن کا کام آسان بنایا گیا۔
درپیش حالات اور مسائل کو مدنظر رکھ کر تنظیمی ساتھیوں کی اکثریت نے اداروں کے تشکیل پر کام شروع کرکے، جنگ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ خودساختہ ہائی کمان اور اسکے ٹولے کو تنظیم کے اندر مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا مکمل راستہ و اختیاردیا اور دیگر آزادی پسند بزرگ راہنماؤں کے ذریعے بھی مسائل حل کرنے کی بھرپور کوششیں کئیں، جن میں قابل ذکر استاد واحد قمبر، میرعبدالنبی بنگلزئی اور استاد گلزار امام شامل ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سندھی آزادی پسند ساتھیوں کے ذریعے بھی ہر ممکن کوششیں کیئے گئے، لیکن تمام نتائج ضد انا و ہٹ دھرمی پر منتج ہوئیں۔
اس دوران ساتھیوں نے دیگر آزادی پسند تنظمیوں سے حالات کو سازگار بنا کر اعتماد کے بحالی کےلئے بھرپور کوششیں کئیں، اعتماد بحال کرکے یو بی اے سے جنگ بندی کرکے جنگ کا خاتمہ کردیا اور نقصانات کا ازالہ کرکے بلوچ آزادی پسندوں ساتھیوں کو شیر وشکر کردیا گیا، بی ایل ایف سے اشتراک عمل کو ممکن بناکے، بی آر جی سے اشتراک عمل کیا گیا اور تمام آزادی پسند تنظیموں کےساتھ دشمن کے خلاف غیرمشروط تعاون کےلیئے حالات کو سازگار بنایا گیا۔
ان تمام حالات میں بی ایل ایف، یو بی اے اور بی آر جی کا مکمل اور دیگر آزادی پسند تنظیموں میں موجود ہم خیال ساتھیوں کا ہمیں بھرپورکمک و تعاون حاصل رہا، اس دوران بھی خودساختہ ہائی کمان اور اسکا ٹولہ ہمارے کام میں رخنہ اندازی کے پالیسی پر عمل پیرا رہا، ایک سال کا طویل عرصہ ہم نے پورے بلوچستان میں مکران سے لیکر کاہان تک دشمن کے خلاف مسلح کاروائیاں سرانجام دیئے، لیکن گیارہ اگست کو چینی انجنیئروں پر ہونے والے کامیاب کاروائی پر اس طرح کا شرمناک ردعمل بہت بڑاسوالیہ نشان ہے۔
تمام تجربات کے بعد تنظیمی اکثریتی ساتھی اور قیادت اس بات پر متفق رہے ہیں کہ بلوچ لبریشن آرمی سینکڑوں شہیدوں کے قربانیوں اور ساتھیوں کی محنت سے بنی ایک تنظیم ہے، جو شخصی اجارہ داری و انفرادی فیصلوں کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا معروضی حالات و تنظیمی تجربات کی روشنی میں ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد تنظیم میں حقیقی اجتماعی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور اس رو سے تنظیمی ساتھیوں کے اکثریتی فیصلے سے تنظیم کا سینیئر کمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی تشکیل دے دیا گیا۔ تنظیم کے تمام کارکنان و کمانڈران ان اداروں کے پابند ہیں۔ کوئی خود ساختہ ہائی کمان کا دعویدار ہو یا ایک سپاہی تنظیمی اداروں کے ماتحت آئے اور ان اداروں کو تسلیم کیئے بغیر، اسکا بی ایل اے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کل رات سے چلنے والی ہمارے سینیئرکمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی کےاجلاس میں تمام کمانڈروں نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ بی ایل اے کے اندر اس قسم کے سطحی گروہی اور روایتی سوچ کی مزید کوئی گنجائش نہیں رہا ہے، تمام مواقع فراہم کرنے کے باوجود خود ساختہ ہائی کمان اور اُسکے ٹولے کی سوچ و رویوں میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے اپنا روش نہیں بدلہ، بلکہ مزید مسائل پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی، لہٰذا تمام حالات کو مدنظر رکھ کر یہ فیصلہ لیاگیا کہ آج کے بعد بی ایل اے سے اس ضدی و انا پرست شخص اور اسکے ٹولے کا کوئی تعلق نہیں ہے، وہ اپنے قول و فعل کا خود ذمہ دار ہونگے۔
بی ایل اے کے دو ترجمان میرک بلوچ اور جئیند بلوچ ہونگے، تنظیم کا ویب سائٹ www.Balochliberationvoice.net ہے اور Hakkal اشاعتی ادارہ ہے BLA_Online@ ہمارا ٹویٹر اکاونٹ ہے، تنظیم کے جنگی مسائل سمیت تمام معاملات کی نگرانی سینئیرکمانڈ کونسل اور آپریشنل کور کمیٹی کرینگے۔ تنظیم کا اس وقت لندن سمیت یورپ و امریکہ میں کوئی بھی نمائیندہ مقرر نہیں ہے۔ بیرون ممالک تنظیم سے جڑے کاموں اور فرائض کی ادائیگی کےلئے سینئر کمانڈ کونسل ساتھیوں کا انتخاب جلد عمل میں لائے گا۔
ہم اس عزم کا دوبارہ اعادہ کرتے ہیں کہ بلوچ سرزمین کی آزادی تک چین سمیت کسی بھی بیرونی قوت یا سرمایہ کاروں سے بلوچ وسائل کی لوٹ مار کےلیئے کسی کو بھی کسی بھی قسم کے معاہدے کی اجازت نہیں دینگے اور ان کے خلاف مزاحمتی عمل میں تیزی اور جدت لائیں گے۔