تحریک اور ردِ انقلابی قوتیں
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
ایک دوست نے ایک واقعے کا ذکر کیا کہ والدین نے اپنے معاشرتی برائیوں میں ملوث اور منشیات کے عادی بیٹے کے بارے میں ایک کہلاوا بھیجا، جو اپنے خاندان اور پورے علاقے کیلئے زندگی جہنم بنا چکا تھا کہ اگر ہمارا بیٹا سدھرتا نہیں تو اسکو مارنا، پیٹنا، سزا دینا حتیٰ کہ اسکی جان لے لینا کیونکہ بیٹا پندرہ بیس سالوں سے معاشرتی برائیوں میں بری طرح ملوث ہے، لیکن دوسرے ہی دن واپس ماں اور باپ کا مشترکہ پیغام آیا کہ نہیں بھائی ہمارے بیٹے کو کچھ نہیں کہنا ہم اپنے فیصلے کو واپس لیتے ہیں کیونکہ دو دن سے ہم کھانے پینے اور نیند سے بھی بیگانہ ہوچکے ہیں، اس خوف میں کہ پتہ نہیں ہمارے بیٹے کی حالت کیا ہوگی، کہیں ہمارے کہنے کے مطابق کوئی اسے سزا نہ دے، قتل نہ کردے۔ یہ دو دن ہمارے اوپر قیامت سے کم نہیں گذرے۔ لہٰذا ہمارے بیٹے کو دلاسہ دو، سمجھاو لیکن اسے سزا دینا یا مارنا ہر گز نہیں، جو بھی ہے جیسا بھی ہے، وہ ہمارا بیٹا ہے، 20 سال کی تکلیف و پریشانی اور مشکلات ہم اب بھول چکے ہیں، اسے معاف کرچکے ہیں، خدارا ہمارے لختِ جگر کو کچھ نہیں کہنا۔
ہر انسان کا ایک مجموعی اور عموعی نفسیات ہوتا ہے، خاص طور پر ماں اور باپ کا کہ ہم ذلیل و خوار ہوں، تکلیف میں ہوں بھوک پیاس اور بے خوابی کا شکار ہوں، مگر ہمارے اولاد خوشحال آسودہ ہر دم خوش و خرم رہیں۔
ہمارے سامنے ایسے سینکڑوں واضح مثال موجود ہیں کہ ماں اور باپ خود اپنی زندگی برباد کرکے محنت مشقت حتیٰ کہ بھیک مانگ کر اپنے لیئے خود کچھ نہیں کرتے، کچھ نہیں کھاتے، ساری اپنے جمع پونجی اولاد کے لیئے مختص کرتے ہیں تاکہ وہ خوشحال اور آسودگی کی زندگی گزار دے۔
یعنی خود ماں اور باپ سب کچھ سہہ کر اولاد کے لیئے سب کچھ قربان کردیتے ہیں، اپنے لختِ جگر پر کوئی دھوپ کی معمولی تپش اور کسی مکھی کا اس پر بیٹھنا گوارہ نہیں کرتے، ماں اور باپ کے بے غرض رشتے کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گھر میں کچھ نہیں ہو، غربت بے بسی اور لاچاری کی انتہاء ہو، مگر وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اولاد ہر وقت ہمارے آنکھوں کے سامنے ہوں، پھر وہ خود کو دنیا کے امیر ترین انسان سمجھتے ہیں، یہ ہر باپ اور ماں کا بنیادی، حقیقی اور عموعی نفسیات ہوتا ہے۔ کوئی مانے نہ مانے، اصل سچائی اور انسانی مجموعی فطرت یہی ہوتا ہے۔
لیکن یہاں معمالہ مجموعی سچائی اور قانون فطرت سے مکمل الٹا ہوگیا کہ وطن اور قومی فکر اور دشمن سے نفرت، قومی آزادی کی حصول، قومی تشخص کی بقاء اور تحفظ کی سوچ و فکر کے تحت اپنے باصلاحیت، تعلم یافتہ، باکمال، باہنر، دوراندیش، قابل، باعلم اور باشعور لختِ جگر کو وطن پر بخوشی فدائی بنا کر فدا کرنا۔
لیکن دوسری طرف انا، ضد، بغض، نفرت، عداوت، حسد، جلن، ذاتی رنجش، ذاتی مفاد یا پھر مخصوص ایجنڈے کے تحت کسی کو خوش، کسی کو ناراض کرنے کے فارمولے کے تحت اس تاریخی انوکھے اور سب کے سب دماغوں کو جھنجوڑنے اور ہلانے والی قربانی اور ایثار کو ذاتی مفاد، ذاتی شہرت کی خاطر استعمال کرنے کا نام دینا، انتہائی شرمناک، غیر اخلاقی، بچگانہ اور تاریخی بلنڈر نہیں اور کیا ہوسکتا ہے؟
یہ تاریخی بلنڈر اب تاریخ کا حصہ بن گیا یہ یاد رکھنا چاہیئے، جب تک یہ تاریخی اور انوکھا عمل اور کردار تاریخ میں زندہ اور درخشندہ باب کی حثیت سے ذندہ اور تابندہ ہوگا، اس وقت تک یہ تاریخی بلنڈر نسل در نسل تاریخ کا حصہ ہوگا، جو ایک قومی المیے سے کم نہیں۔
ازلی دشمن اور اس کے ہمنوا بھی اب تک اس تاریخی کردار و عمل کے لیئے، برے لفظ استعمال کرنے سے کتراتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن اپنوں نے اپنائیت کے پردوں میں دشمن سے بھی 10 قدم آگے بڑھ گئے، یہ تو تاریخ کے بدترین، عبرتناک، شرمناک، صفحوں میں شامل ہوگیا۔
آج ہر کوئی اس تاریخی واقعے کے بعد کیسے اور کس طرح مثبت انداز میں پرامید، پرحوصلہ اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوکر مکمل اور عملاً تبدیل ہوگئے لیکن کچھ جوں کا توں ہوئے بغیر، الٹے رخ و سمت محو سفر ہوکر اس تاریخی واقعے کو استعمال اور نازیبا الفاظات سے نوازنا اور پھر بھی ان سے خیر کی توقع کرنا میرے خیال میں انتہائی بے وقوفی اور احمقی ہوگی اور اپنے آپ کو صرف دھوکا دینے اور اپنے وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔
ایک تو علم نفسیات کی روشنی میں جب انسان خود نااہل، نالائق، سست، بزدل، بددل اور کچھ کرنے سے عاری ہوگا یا اپنے آپ کو خود محروم کردیگا وہ پھر احساس کمتری کا شکار ہوگا، تو وہ احساس کمتری میں ہر اس عمل و کردار اور کارنامے میں نقطہ چینی، خامی اور کیڑا نکالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی ذہنی تسکین ہو۔
باشعور باعلم دوراندیش اور سچائی کے علمبراد انسان کی نفسیاتی حوالے سے واضح علامات یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنوں کی اپنی جگہ حتیٰ کہ دشمن کے بہترین کاموں، کارناموں، صلاحیتوں اور بہادریوں کو تسلیم کرکے سراہتے ہیں، تاریخ میں ایسے سینکڑوں مثال موجود ہیں۔
آج یہ وہم اور خدشہ حقیقت کا روپ دھاررہا ہے اور ایک تلخ حقیقت ثابت ہورہا ہے، ہم یہاں ایک مثال لیتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان ملکر ضیاء دور آمریت میں سپرپاور روس کی خطے میں اثرسوخ کو کم کرنے اور روس کو شکست فاش دینے کی خاطر مجاہدین اور طالبان کی تخلیق کرتے ہیں، صرف اور صرف معاشی مفاد کی عوض، گوکہ امریکہ اور پاکستان کے مقاصد پورا ہوگئے روس اور سوشلزم کی انہدام کے شکل میں، لیکن یہ بھی سچائی سامنے آگیا کہ طالبان بھی بجائے پریشر گروپ اور معاشی مفاد حاصل کرنے کے ایک حد تک اسلامی نظریاتی شکل بھی اختیار کرگیا، آج امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اور پاکستان کے لیئے خود ایک دردسر بن چکا ہے۔
کیا یہ خطرناک اور دلخراش حقیقت نہیں ہے؟ موجودہ بلوچ قومی تحریک کو اپنے معاشی، ذاتی، کاروباری مفاد حاصل کرنے کے حصول کے خاطر شروع کیا گیا؟ لیکن بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، خواتین، تعلیم یافتہ اور سیاسی لوگوں کی جوق درجوق تحریک میں شمولیت قربانی اور قومی تحریک کو نظریاتی رخ اور شکل دیکر اس میں وسعت پیدا کرنا بلکہ محدود سطح اور نظریاتی و فکری بنیادوں پر ہاتھوں سے نکل جانے کی سوچ اور خدشہ آج تحریک کو صرف پریشر گروپ کی حد تک رکھنے والوں کے لیئے ناگوار بنتا جارہا ہے۔ اس میں نچلی سطح کے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تھکاوٹ اور رافرایت کا شکار ہیں، یعنی سب کے چھوٹے چھوٹے ایجنڈے کسی بڑے ایجنڈے میں مشترک ہوکر رد انقلابی عوامی وسعت، قومی تحریک خاص طور پر مسلح جہدوجہد یعنی جنگ مخالف قوت ابھر کر سامنے آرہا ہے، یعنی صرف پریشر گروپ کی حد تک ہی صحیح وصال صنم بھی ہوئی اور خدائی بھی ملی کے مصداق تحریک بھی عیش و عشرت اور بزنس بھی۔
وگرنہ جب قومی و عوامی تحریک کی شکل اختیار کریگی تو پاکستان چین اور اس کے ہم خیال اور ہمنوا ممالک ضرور سیاسی فوجی اور سفارتی طریقے سے ضرور کوئی ایکشن لینگے، اس خوف کے تناظر میں کوہلو کاہان سے لیکر مکران تک تحریک میں انتشار، خلفشار، مخالفت آپسی جنگ سب کے سب نظریاتی شکل اختیار کرنے والے تحریک کو محدود کرنے کی پالیسی اور ایجنڈے نہیں ہیں؟
ضرور تحریک میں تمام محاذوں پر لڑنے کی ضرورت ہے، ان سے انکار ممکن نہیں لیکن چند تقریر، تحریر، مظاہرے، بینر، پوسٹر سازی، مہم چلانے، نعرے بازی، اکا دکا کاروائی سے چین اور پاکستان جیسے ممالک کو بلوچ سرزمین سے باہر نکالنے اور دنیا کی توجہ اور کمک حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔
جب تک بلوچ قومی تحریک عوامی شکل اختیار نہیں کرے اور بلوچ قومی جنگ ہر طرف شدت کے ساتھ پھیل نہ سکے، اس وقت تک دنیا کی کھل کر کمک و حمایت ممکن نہیں۔ تو پھر حالیہ ایسے کارنامے، جو تحریک اور بلوچ قوم میں حوصلے اور امید پیدا کریں، پھراس کی بھرپور مخالفت، حوصلہ شکنی اور استعمال کرنے کا نام دیکر متنازعہ کرنے کی ناکام کوشش کرنا، جنگ مخالف اور تحریک کی وسعت اختیار کرنے کی مخالفت یا رد انقلابی قوت کی واضح مثال نہیں ہے؟
دنیا میں ایسے بہت سے مثال ہمارے سامنے ہیں، کیوبا میں ردانقلابی قوتیں جنگ کی مخالفت در مخالفت، حوصلہ شکنی اور فیڈرل کاسترو اور ڈاکٹر چے کی سربراہی میں جہدوجہد اور گوریلاجنگ کو متنازع بنانے کی کوشش، وہ بھی کیوبا سے باہر بیٹھ کرکیوبا جنگ کی مخالفت کرنا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب کیوبا میں کاسترو اور ڈاکٹر کی سربراہی میں انقلاب برپا ہوا، تو کامیابی کے بعد بھی ردانقلابی قوتوں نے سی آئی اے کی ایماء، مدد اور کمک سے انقلابی کیوبن کونسل تشکیل دیکر یہ موقف اختیار کی کہ کیوبا آزاد نہیں ہوا ہے، بلکہ روس کا ایک کالونی ہے۔ کاسترو ڈاکٹر چے اور اس کے ساتھی انقلابی نہیں بلکہ روس کے ایجنٹ اور پروکسی ہیں، ہم انقلابی کیوبن کونسل والے کیوبا میں انقلاب برپا کرکے کیوبا کو روس سے آزاد کرینگے، پھر رد انقلابی کیوبن کونسل نے سی آئی اے کی مدد سے کاسترو اور ڈاکٹر چے کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا لیکن عظیم رہنماؤں فیڈل کاسترو، ڈاکٹر چے اور ان کی دیگر قیادت کی دوراندیشی اور صلاحیتوں کے سامنے ردانقلابی قوتیں بری طرح ناکام ہوگئے اور بڑی تعداد میں گرفتار بھی اور قتل ہوگئے۔
کم سے کم اس تاریخی دور میں ہرآزادی پسند، مخلص اور ہم خیال جہدکار کو روایتی، جذباتی، سطحی، محدود، بچگانہ، آنکھوں اور کانوں کو بند کرنے والی سوچ سے نکل کر دنیا کی تمام کامیاب و ناکام تحریکوں اور ردانقلابی اور رد جنگی قوتوں کی تاریخ کا مطالعہ اور علم سے لیس ہوکر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، انسان کی روپ میں جانور اور بھیڑ و بکری بن کر دوڑنا شعور اور علم کی علامت نہیں ہوتا۔
میں آخر میں اپنی بات روس کی انقلابی لیڈر اور رد انقلابی قوتوں کی کٹر دشمن “جوزف اسٹالن کی اس بات ہر ختم کرتا ہوں اسٹالن نے ایک بار کہا تھا
“میں جانتا ہوں کہ میری موت کے بعد، میری قبر پر جھوٹ کا پلندہ ڈھیر کیا جائے گا لیکن تاریخ جلد یا بدیر بے رحمی سے اس کا صفایا کر دے گی۔”