تاریخ ء مادرئین – برزکوہی

321

تاریخ ء مادرئین

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچوں کی تاریخ میں میر قمبر اور اس کی ماں کی بہادری کی آج بھی بلوچوں کے دل میں ایک تاریخ اور داستان زندہ ہے، جب میر قمبر جنگ پر روانہ ہوتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے

من پیراں کہ ورنا بیاں
قبرئے پہ ھالو ات براں
موتک ءِ بدل نازینک جناں
ڈُھل ءُ دمامہ ساز کناں
چاپ ءُ ھلو ھالو کناں
ھپت روچ ءَ شاتکامی جناں
دستاں وتی ھِنّی کناں
موردانگاں مندریک کناں
لُنٹاں وتی مُزواک جناں
چمّاں دو بر سُرمگ کناں
بیکّاں وتی ساپ کناں
پَنگے گوپاں کانٹ کناں
بو ءُ دُن ءُ دابے کناں
سیری گُداناں پِر کناں
نوکیں نِکاھے پر کناں
تئی پِسّ ءَ دگہ سانگے کناں
تئی مٹّ ءَ پدا پیداک کناں

اسی طرح بالاچ گورگیج کی ماں، لیجنڈ ریحان کی ماں گودی یاسمین، ڈاکٹر خالد کی ماں، شہید مجید فدائی کی ماں، شہید درویش کی ماں، شہید نثار و مجید اور شہید دلجان کی مائیں، شہید امیرملک کی ماں شہید نعیم قلندرانی کی ماں، ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اور اخترندیم کی مائیں، شہید طارق کریم کی ماں اور دیگر بے شمار ایسی مائیں ہیں جو آج تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں، جنکو اور جنکے کردار کو ایک ہی کالم میں سمو دینا شاید ممکن نہیں۔

بلوچ قوم خاص طور پر بلوچ مائیں ایک دفعہ پھر تاریخ کو دہراتے ہوئے، اپنی قومی غیرت، استقامت اور بہادری سے بلوچ قوم کی تاریخ کو تاریخی صفحوں میں زندہ کررہے ہیں۔ جو بلوچ قوم، بلوچ تحریک اور بلوچ سرزمین کے لیئے سرخروئی اور قابل فخر اور سربلندی ثابت ہوگی۔

بلوچوں کی وہ خوش قسمت نسل ہم ہیں، جو کتابوں میں پڑھنے یا تاریخی داستانوں میں سننے کے بجائے تاریخ کو خود ہی اپنی ہی آنکھوں اور کانوں سے دیکھتے اور سنتے آرہے ہیں۔ قوموں کو ایسے تاریخ ساز دور اور موقع بہت کم ہی نصیب ہوتے ہیں اور یہ نصیب اور موقع بحثیت موجودہ نسل ہمیں نصیب ہوا ہے۔

آج بے رحم مورخ قلم اور کتاب ہاتھ میں لیکر پھرتا اور گھومتا ہوا، بلوچ کی تاریخ لکھ رہا ہے، پھر کون زندوں میں شمار ہوگا اور کون مردوں میں شمار ہوگا؟ تو ہم بحثیت بلوچ جہدکار قیادت سے لیکر کارکناں، اس تاریخی دور اور تاریخ موقع میں خود اس وقت کہاں پھرتے اور گھومتےنظر آرہے ہیں؟ کیا ہم تاریخ کے صفحوں میں زندہ ہونگے یا گمنام ہوجائینگے؟

ہم نے بارہا کہا اور کہتے ہوئے آرہے ہیں کہ تاریخی مطالعہ و مشاہدات سے یہ ثابت اور اخذ ہوچکاہے کہ تاریخ میں زندہ ہونے کے لیئے تاریخی کردار کے تقاضے ہوتے ہیں۔ جب وہ تقاضے پورے نہیں ہوں، تو ہم تاریخی دور میں ہوتے اور جہدوجہد سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی تاریخ میں مردہ شمار ہونگے۔ وہ تاریخی کردار اور تاریخی تقاضات کیا اور کہاں پر ہیں؟

سوال یہاں سے یہ اٹھتا ہے کہ تاریخی کردار اور تاریخی تقاضات کا حقیقت کیا ہے؟ اور پہلے خود حقیقت کیا ہے؟ رومی وائسرے پائلیٹ، ایک رومی کا نجیب بیٹا، جس کے سامنے حقیقت کے لفظ کو بری طرح مجروح کیا گیا تھا اور سوال تھا، حقیقت کیا ہے؟ اناطول فرانس اسے دنیا کا اہم ترین سوال سمجھتا تھا

پائلیٹ کے سوال کا جواب احساس تھا یعنی ہم چکھتے، چھوتے، سنتے، سونگھتے اور دیکھتے ہیں اس سوال کا اس سے زیادہ آسان جواب اور کیا ہوگا؟ لیکن اس سوال کے جواب سے فلسفی افلاطون مطمئین نہیں تھا، افلاطون کہتا تھا اگر یہ حقیقت ہے تو حقیقت کا سرے سے وجود نہیں ہے کیونکہ ہر شخص کے حواس مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں۔

تو آج ہمارے حواس کے مطابق پہلے حقیقت کیا ہے؟ پھر اس حقیقت پر مبنی تاریخ تاریخی کردار اور تاریخی تقضات کیا ہیں؟ کیا ہمارے حواس ہماری خواہشات اور ہماری آرزوؤں کے مطابق اپنے طریقے سے حقیقت کی عمارت کے تعمیر نہیں کررہے ہیں؟ پھر وہ حقیقت کس حد تک حقیقت ہوتا ہے؟ یا بقول افلاطون وہ حقیقت سرے سے وجود نہیں رکھتا، جس کو ہم حقیقت مان کر بیٹھے ہوئے ہیں؟

ایسے بھی بلوچ ہیں جو صرف بلوچ قوم اور بلوچستان کا نام لیکر نعرے بازی، تحریر و تقریر، بحث و مباحثہ، مظاہرے کی حد تک یا بلوچستان کے لیئے پہاڑوں میں بیٹھ کر یا جلاوطنی کی زندگی گذار کر یا پھر صرف اور صرف تحریک سے وابستگی کو بھی قومی خدمت اور قومی جہدوجہد تاریخی کردار اور تاریخی تقاضات کو پورا سمجھ کر تاریخ میں ذندہ ہونے کی خواہشمند اور مطمین ہیں کیا ایسا ممکن ہے؟ یا یہ انسان کے اپنے حواس سے تشکیل پانے والی سوچ ہے؟ پھر اس سوچ کی حقیقت سے کتنا قربت ہے؟ اگر حواس سے تشکیل شدہ سوچ حقیقت پر مبنی ہے، تو پھر ہر انسان کے حواس سے پرورش جنم لینے والی انفرادی سوچ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے؟ پھر ہر ایک اپنی حواس اور سوچ کو حقیقت سمجھ کر حقیقت پسند ہوتا ہے؟ پھر کون حقیقت سے برعکس ؟ کس طرح اور کیسے وہ حقیقت سے برعکس محو سفر ہے؟ وہ جانتا ہے یا سمجھتا ہے، میں حقیقت سے برعکس جو سمجھتا ہوں اور جو جانتا ہوں، وہ حقیقت سے برعکس ہے اس استدلال کے مطابق کہ یہ میرا انفرادی حواس ہے۔

فلسفی پارمینی ڈیز کے نزدیک حرکت، تغیر، عروج و زوال اور ارتقاء سب کچھ نظر کا دھوکہ ہے انکی کوئی حقیقت نہیں ہے اس کا خیال تھا کہ حقیقت کا علم صرف عقل سے حاصل ہوسکتا ہے انسانی حواس ہمیں صرف دھوکا دیتے ہیں یہ حقیقت کا علم نہیں دے سکتا ہے ۔

پوری قوم کو ایک طرف رکھ کر کبھی کبھبار میں بذات خود، اپنی ذات سے لیکر، دیگر جہدکاروں کو، قیادت سے لیکر کارکنوں تک دیکھ کر ایسا محسوس کررہا ہوں کہ اکثریت اپنے کردار کو تاریخی کردار کے زمرے میں شمار کرتے ہیں جو ممکن نہیں ہے، یہاں صرف عقل کی کم حواس کا عمل دخل ذیادہ ہے تو بقول فلسفی پارمینی ڈیز “حواس انسان کو دھوکا دیتا ہے” کیا ہم خود اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے رہے ہیں یا اس تاریخ ساز دور اور موقع کو ضائع نہیں کررہے ہیں؟ خود ضائع شدہ جہدکاروں میں شمار نہیں ہورہے ہیں؟ اگر ہورہے ہیں تو کیوں ہورہے ہیں؟ اس لیئے کہ عقل اور شعور سے زیادہ حواس ہم پر حاوی ہے، صرف اور صرف حواس کے بل بوتے پر محو سفر ہونا خود دھوکے کے زمرے میں شمار ہوتا ہے، جس کی بنیاد تاریخی تقاضات اور کردار سے مکمل برعکس انسانی انفرادی آرزؤوں اور خواہشات پر مبنی ہوتا ہے اس لیئے لاکھوں انسان تاریخ ساز دور سے گذرکر بھی تاریخ رقم نہیں کرسکتے ہیں۔

اگر جو تاریخ رقم کرتے ہیں، وہ عقل اور شعور سے ایسے فیصلے کرتے ہیں، جن کو تاریخ یاد کررہا ہے اور آگے بھی یاد کرتا رہے گا۔ جس طرح تاریخ درویش، مجید، ریحان کے ساتھ دیگر ناموں سے لیکر مادرئیں تاریخ کو یاد کررہا ہے جو ہمارے سامنے زندہ مثال ہیں۔

میرے کہنےکا مقصد عقل و شعور سے تاریخ، تاریخی ادوار اور تاریخی کردار کی حقیقت کو جان کر اپنی زندگی، اپنی جدوجہد اور اپنے فیصلوں کو پرکھنا ہوگا، اس کے بغیر حواس اور لاشعور کی بنیاد پر ہم تاریخ ساز دور میں ہوتے ہوئے یا جدوجہد کا حصہ اور صرف وابستہ ہوتے ہوئے بھی مکمل ضائع شدہ جہدکار اور انقلابی ہیں، یہ ایک تلخ حقیقت ہوتے ہوئے ہمیں ماننا ہوگا بلکہ آج سے اپنا جائزہ لینا ہوگا اور آگے قدم بڑھانا ہوگا۔