روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے منگل اکیس اگست کو ملکی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کے حوالے سے بتایا کہ افغان طالبان نے چار ستمبر کو ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان اور روس کے مابین ہونے والے یہ حالیہ رابطے غیرمعمولی ہیں۔ امریکی حکام ماضی میں ماسکو حکومت پر افغان طالبان کو ہتھیار فراہم کرنے جیسے الزامات عائد کر چکے ہیں
روس ابھی تک طالبان کو ایک دہشت گرد گروہ تصور کرتا ہے لیکن روس میں تعینات افغان سفیر عبدالقیوم کوچائی کے مطابق ماسکو حکومت افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان ہے اور اب طالبان کی مدد سے اس شدت پسند تنظیم کو شکست دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف ماسکو حکومت نے افغان سفیر کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے۔ انٹرفیکس نے روسی وزیر خارجہ کے حوالے سے بتایا کہ روس کے طالبان سے مذاکرات کا مقصد افغانستان میں روسی شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانا اور طالبان کو امن عمل کے لیے تیار کرنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق علاقائی سطح پر طالبان کے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافے اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مذاکرات سے بطور ایک جنگی فریق طالبان مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ جمعے کے روز طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ازبکستان کا اپنا چار روزہ دورہ مکمل کر لیا تھا۔ اس دورے کے دوران طالبان رہنماؤں نے ازبکستان کے وزیر خارجہ عبدالعزیز کامیلوف سے بھی ملاقات کی تھی۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق یہ مذاکرات ازبک صدر شوکت میرزیوئیف کے ایما پر ہوئے تھے۔
خطے کے ان ممالک کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کا سلسلہ نیا ہے جبکہ طالبان کے قطر میں موجود سیاسی رہنما چینی، پاکستانی اور ایرانی حکام کے ساتھ پہلے ہی متعدد بار ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ حال ہی میں امریکی حکام نے بھی طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا تھا جبکہ امریکا افغانستان میں طالبان کے خلاف اپنے عسکری حملوں میں بھی کمی لا چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان عسکریت پسند ایک طرف تو افغان سکیورٹی دستوں پر پے در پے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں اضافہ بھی ان کی پوزیشن کو مضبوط بنا رہا ہے۔
یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں ایشیا پروگرام کے نائب صدر اینڈریو ویلڈر کے مطابق اگر ماسکو حکومت امن کے لیے ’مثبت کردار‘ ادا کرتی ہے، تو واشنگٹن اس کا خیرمقدم کرے گا۔ تاہم ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’بیرونی حکومتوں کی طرف سے طالبان کے ساتھ اعلیٰ سطحی مذاکرات میں اگر افغان حکومت کو شامل نہیں کیا جاتا، تو یہ خطرہ موجود رہے گا کہ طالبان کو بہت زیادہ اہمیت اور اتھارٹی دی جا رہی ہے۔