ڈاکٹر مہدی حسن اس وقت پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے چیئر پرسن ہیں۔ ان کی کتاب ’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘ کو صحافتی اور علمی حلقوں میں حوالے کی ایک اہم کتاب سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مہدی حسن جمہوری اقدار اور آئین و قانون کی بالادستی کے حق میں اس قدر غیر مبہم خیالات کے حامل ہیں کہ انہیں جہموری، ترقی پسند پاکستان کی ایک مضبوط آواز قرار دیا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ ان کی خصوصی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو: نوازشریف اور مریم نواز کی واپسی اور گرفتاری سے پاکستانی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی کا وطن واپس آنا اور خود کو قانون کے سامنے پیش کرنا ان کی جماعت کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ان کے کارکنوں اور بنیادی قیادت میں جوش و جذبہ پیدا ہوا اور وہ بےبسی اور شکست خوردگی کی کیفیت سے باہر نکلے بلکہ 13 جولائی کو ان کا شو بہت اچھا رہا۔ اس کا انہیں انتخابی حوالے سے بھی بہت فائدہ ہو گا۔ ہماری ایک سیاسی حقیقت یہ ہے کہ لاہور کے سیاسی فیصلے سے پنجاب کا رخ متعین ہوتا ہے اور پنجاب سے پاکستان کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ 13 جولائی کا دن مسلم لیگ ن کا دن تھا۔ دوسری بات جو اس دن کی کارروائی سے کھل کر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ موجودہ نگران حکومت ایک کمزور حکومت ہے اور اس میں فیصلے کرنے کی طاقت نہیں۔
ڈی ڈبلیو: آئندہ انتخابات کے نتیجے میں آپ کیسا سیاسی منظرنامہ دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر مہدی حسن: موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ پارلیمان میں ایک معلق حکومت ہو گی جہاں کسی کو غالب اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔ لہذا کسی کے پاس بھی پالیسی سازی کا مکمل اختیار نہیں ہو گا یعنی جو بھی حکومت بنے گی وہ ایک کمزور حکومت ہو گی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی جیت جائے گی، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا اور کوئی پارٹی اکثریت نہیں لے سکے گی۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف اور جمیعت علمائے اسلام کے درمیان مقابلہ ہے۔ بلوچستان میں قومی پارٹیاں جیت جائیں گی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے کسی کے ساتھ اتحادی حکومت نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور چونکہ انہیں سادہ اکثریت ملنے کا امکان بہت کم ہے لہذا ایک غیر واضح اور پیچیدہ صورت حال پیدا ہو گی۔
ڈی ڈبلیو: اس وقت کئی سیاسی جماعتیں قبل از انتخابات دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں۔ ان میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ دونوں شامل ہیں۔ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: الیکشن کے نزدیک اس نوعیت کے بیانات ہمیشہ انتخابی مہم کا حصہ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر لاہور میں پیپلز پارٹی کا کوئی بینر یا پوسٹر ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ لاہور میں جو کچھ بھی سیاسی جوش و خروش اور انتخابی مہم جوئی جاری ہے، اس میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور مذہبی پارٹیاں تو نظر آتی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کہیں نظر نہیں آتی۔ حتی کہ بلاول ہاؤس میں بھی کوئی ہلچل نہیں۔ اتفاق سے میرا گھر بلاول ہاؤس سے بہت قریب ہے۔ مجھے وہاں کوئی انتخابی جوش و خروش دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح تحریک انصاف کو پنجاب کے دیہات میں حمایت حاصل نہیں ہے۔ عمران خان کی شہرت شہروں تک محدود ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن شہروں کے ساتھ ساتھ دہہات میں بھی جڑیں رکھتی ہے۔ سیاسی حقیقت یہی ہے کہ آئندہ پارلیمان میں ایک منقسم مینڈیٹ ہو گا۔
ڈی ڈبلیو: ملک میں دہشت گردی کی لہر نے انتخابی مہم کو شروع ہونے سے پہلے ہی ماند کر دیا ہے۔ کیا گزشتہ انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی پروگریسو پارٹیوں کو ایک دانستہ فیصلے کے تحت پیچھے دھکیلا جا رہا ہے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: جی ہاں، بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں ان جماعتوں کو نشانہ بنا رہی ہیں جو ترقی پسند خیالات کی حامل ہیں اور پاکستانی سیاست میں مذہب کی مداخلت کو غلط سمجھتی ہیں۔ لیکن اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ موجودہ نگران حکومت ایک کمزور حکومت ہے۔ قانون کی حکمرانی بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ طالبان اگر اے این پی کو نشانہ بنا رہے ہیں تو اس جماعت کا گڑھ خیبر پختونخواہ ہے۔ اگر اپنے صوبے میں جہاں روایتی طور پر ان کی جڑیں مضبوط ہیں، انہیں اس قدر خطرہ ہے تو یہ سبھی کے لیے ایک تشویش کی بات ہے۔ بہرحال یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس وقت نگران حکومت کی نہیں بلکہ قومی احتساب بیورو کی حکومت قائم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلوں سے قطع نظر، انتظامی فیصلوں میں بھی نگران حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
ڈی ڈبلیو: میڈیا پر عائد پابندیوں پر بہت شور اٹھ رہا ہے۔ ڈان کی ترسیل پر غیر اعلانیہ پابندیاں، جیو کی نشریات کو کیبل آپریٹروں کی طرف سے بند کیا جانا، صحافیوں کا اغوا، ان پر تشدد وغیرہ کو انتہائی سنگین صوت حال قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے تحریک چلا رہی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر مہدی حسن: پاکستان میں میڈیا صرف بیانات چھاپنے کی حد تک آزاد ہے۔ پاکستانی میڈیا کو معلومات تک رسائی کا حق، جاننے کی آزادی، اور تحقیق کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ میڈیا پر جو جبر اس وقت جاری ہے، وہ بھی اسی بڑے مسئلے کا ایک حصہ ہے۔ اسی مسئلے کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ میڈیا بھی بری طرح منقسم ہے اور صحافتی اخلاقیات کو خیرباد کہ چکا ہے۔ پاکستان میں آزادی صحافت کے لیے ایک شاندار جدوجہد کی گئی۔ 1950 کی دہائی کے بعد پاکستان کے صحافیوں اور ان کی تنظیموں نے تحریکیں چلائیں اور ان کی قربانیوں ہی کی وجہ سے میڈیا کو آزادی ملی۔ آج پی ایف یو جے خود کئی حصوں میں منقسم ہے اور ہر کوئی دوسرے کے خلاف ہے۔ میڈیا میں موجود اس تقسیم نے دراصل اسے کمزور کیا ہے۔ اس کے علاوہ، میڈیا کو خود اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے۔ ہر ادارے میں سینئر صحافیوں کی ایک ٹیم ہونی چاہیے جو یہ دیکھے کہ کیا شائع ہونا چاہیے اور کیا نہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں عمران خان نے اپنے مخالفوں کے لیے ایک نامناسب لفظ استعمال کیا۔ یہ لفظ حذف ہونا چاہیے تھا۔
ڈی ڈبلیو: کیا اسٹیبلشمنٹ کسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کر رہی ہے؟
ڈاکٹر مہدی حسن: پاکستان میں انتخابات کا ہو جانا اور ایک منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ ہماری تاریخ میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں، ان سب میں اسٹیبلشمنٹ نے کسی نہ کسی جماعت کی حمایت کی۔ اس مرتبہ، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تحریک انصاف ہی اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعت ہے۔