نمیرانیں شہید شاکر شاد – شاہ میر بلوچ

443

نمیرانیں شہید شاکر شاد

تحریر: شاہ میر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

دنیا میں بہت سے لوگ پیدا ہوتے اور مرجاتے ہیں، لیکن ان لوگوں میں کچھ ایسے لوگ بھی جنم لیتے ہیں، جن کا کردار لازوال ہوتاہے، خالق حقیقی سے جا ملنے کے بعد بھی دنیا میں انکا نام زندہ رہ جاتا ہے۔ ایسی شخصیت کی موت سے بھی لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے، مرنے کے بعد وہ ختم نہیں ہوتے ہیں بلکہ انکو تاریخ میں سنہری حروف سے یاد کیا جاتا ہے، جو ہر باشعور کے ذہن میں زندہ رہ جاتے ہیں۔

جب انسان زندگی میں کچھ کرنے کا فیصلہ کرتاہے تووہ یوں ہی نہیں سوچتا کہ مجھے کیا اپنے لیے کرناہے یا کسی مذہب کیلئے یا پھر آنے والی نسل کیلئے کرنا ہے۔ ان چیزوں کو وہ معاشرے سے سیکھتا ہے یا کسی قوم پر گذرنے والی ظلم وجبر کی انتہائی، کٹھن حالات اسے سکھا دیتی ہیں۔

اگر ہم تاریخ میں لوگوں کی زندگی کے بارے میں سوچیں تو ہمیں چند ہی لوگ نظر آتے ہیں کہ جن لوگوں نے تاریخ رقم کی یا اپنے قوم کیلئے یا انسانیت کیلئے ناقابل شکست کردار ادا کیا۔ ان لوگوں میں منڈیلا، کامریڈ چے گویرا، ماوزتنگ، شہید فدا احمد، شہید حمید بلوچ جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے قومی بقااور انسانی سربلندی کی خاطر جیلوں میں اذیتیں، بھوک کی زندگی برداشت کی لیکن ظالمین و قابضین کے سامنے سر نہیں جھکایا۔

یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہی ہے کہ میں جس شخص کا ذکر کرنے جارہاہوں، تاکہ اس کے بارے میں آپ سمجھ سکیں کہ کس طرح ان نوجوان نے اپنی اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے۔

وہ نوجوان جہد کار اور اپنے فرض نبھانے والے شہید شاکر شاد ہے، انہوں نے بی ایس او آزاد کا پیغام کولواہ کے ہر گھر گھر میں پہنچایا ہے، اسکی کمی کوآج کولواہ کے ہر نوجوان محسوس کرتاہے، شہید مرتے نہیں بلکہ امر ہوجاتے ہیں۔ اس لیئے میں کہتاہوں، وہ زندہ ہے۔

شہید شاکر شاد کولواہ کنیچی میں ایک انتہائی غریب گھرانے میں جنم لیا اور اپنی بنیادی تعلیم کولواہ سے کنیچی کے پرائمری سکول سے حاصل کی۔میٹرک کی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول مرہ شم سے حاصل کر رہا تھا، شہادت سے پہلے اس نے میڑک کی امتحانات گشکورھائی اسکول سے دئے تھے، لیکن رزلٹ کے انتظار میں تھے کہ 28جولائی 2017کو پاکستانی فوج نے کولواہ کے علاقےکنچی میں آپر یشن کرکے شاکر شاد ،صادق بلوچ ، مجید عاجز کو شھید کردیا اور شہید شاکرشاد کی بھائی حاصل بلو چ کوبھی شہید کردیا۔

شہید شاکر شاد انتہائی محنتی نوجوان تھا، وہ اپنے گھر میں درزی گری کا کام کرتا تھا تاکہ اپنے گھر اور پڑھائی کو جاری رکھ سکے۔ شاکر شاد باشعور اور ذہین نوجوان تھا، جو بلوچ تاریخ سے واقفیت رکھتا تھا۔ آپ نے بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے ممبر شپ حاصل کی، اپنی محنت اور لگن کی وجہ سے جلد ہی بی ایس او آزاد کولواہ کے زونل رکن منتخب ہوئے، ایک انتہائی مخلص اور ایماندارسیاسی کارکن تھے، ہر تنظیمی کام کو باخوب فرض سمجھ کر نبھاتے رہے ،دوستوں کے ساتھ ہمیشہ ہنستے تھے اور مزاحیہ مزاج کے انسان تھا۔

مجھے یاد ہے وہ دن، جب بی ایس او آزاد کولواہ زون کا جنرل باڈی اجلاس ڈنڈار میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں شاکر شاد موجود تھے، تو ہم دوستوں کے ساتھ بات کرتے ہو ئے کہا کہ پاکستان کے ظلم وجبر کو دیکھیں تو معلوم ہوتاہے، ہر چیز ہونے کا امکان موجود ہے پتہ نہیں کس کوکہاں نقصان دے، میں اس بات کو بھولا نہیں تھا کہ مجھے شاکر شاد کی شہادت کی اطلاع موصول ہوئی۔

ایک بار آپ نے کہا کہ بی ایس او آزاد کے بدولت ہم ہر جگہ بلوچستان کے کونے کونے میں قومی شعور سے آراستہ ہیں۔ زندہ قوم کی حیثیت سے رہ رہے ہیں، اپنی غلامی کا احساس رکھتے ہیں۔ اگر بی ایس او نہ ہوتا تو شعور کا فقداں ہوتا ۔

بی ایس او آزاد کی کاروان کے مسافر تھا، اس لئے شہیدوں کی تنظیم ہو نے کی وجہ شہید شاکر شاد کولواہ کے لوگوں کے دلوں میں بس گئے تھے۔ میں نے مز ید پڑھائی کیلئے کو لو اہ سے تربت کا رخ کیا تھا۔ کو لو اہ میں پا کستانی فو ج کی فو جی کارروائیاں ہر روز بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن اس کے با وجو د شہید شاکر شاد جیسے با حوصلہ کارکن اپنے تنظیمی کاموں سے جڑے رہتے تھے۔ میں جب بھی گھر جا تا تھا لازم شہید شاکرشاد ہم سے کو ئی نا کوئی کام کرواتا تھا۔

ایک دفعہ ہمیں علاقے میں کارنر مٹینگ لگوائیں تاکہ اپنے لوگوں میں احساس غلامی پیدا کریں۔ آئے روز نا پاک ریاست کی آپریشن روزانہ مسخ شدہ لاشوں کے پھینکنے کے بارے میں آگاہی دیں۔ جب ہم نے مٹینگ کرنا شروع کیا تو شہید شاکر جان نے اپنی ہر طرح کی باتوں میں اپنی قوم کو آگاہی دی۔

ایک دفعہ 13 نومبر کے حوالے سے ایک درگاہ زیارت شریف کے مقام پر لیکچر پروگرام منعقد کیا، میرا شہید شاکر شاد سے فو ن پر حال احوال ہو تا تھا لیکن ملا قات نہیں ہو سکا۔ لیکچر کے بعد حسب روایات شہید شاکر جان پروگرام ختم ہو کرکے مجھ سے باتیں شروع کی، سیاسی صوتحال اور ریاست کی بر بریت کے بارے میں شہید نے کہا کہ ریاست کسی کو نہیں بخشے گی لیکن مرنا تو ضروری ہے۔ لیکن ایک ایسی موت کا مزہ چکھیں، جیسا کہ شہید باھوٹ شہید رازق، شہید کامریڈ رضا جہانگیر نے پایا ہے۔

شہید شاکر شادنے تاریخ کو زندہ کرکے اپنے کہی ہو ئی باتو ں پر عمل کرکے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ جب تک دنیا میں ایک انسان موجود ہے وہ زندہ ہے۔