مقبوضہ بلوچستان: جمہوری رائے بندوق کی نوک پر _ زرمبش لٹریری فورم

290

مقبوضہ بلوچستان:جمہوری رائے بندوق کی نوک پر

تحقیق وترتیب :زرمبش لٹریری فورم

روان مہینے کی 25تاریخ کو پاکستان عام انتخابات منعقد کررہاہے ۔انتخابات جمہوری نظام کا سب سے اہم حصہ ہوتے ہیں جس کے ذریعے عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اوروہ نمائندے حکومت کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ حکومت ایک معین مدت تک نظام سرکارچلاتی ہے اور اپنی مدت کرکے ایک اورانتخابی عمل کے ذریعے انتقال اقتدارکرکے حکومت نومنتخب نمائندوں کے حوالے کیاجاتاہے ۔

جمہوریت کا مطلب عوام الناس کی رائے سے بننے والی حکومت یا وہ حکومت جسے عوام کثرت رائے سے منتخب کرتے ہیں اور پھرعوام اس حکومت کے فیصلوں کی پابند ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس حکومت کو قانون سازی کا اختیار دیتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں واقعی جمہوریت ہے یا پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے؟

ہمیں پاکستان کی جمہوریت اورجمہوریت پسندی کابخوبی علم ہے کہ پاکستان نے وجود میں آتے ہی ہمارے جمہوری اور منتخب ایوانوں کے فیصلوں کی دھجیاں اڑائیں اور بلوچ قوم کی جمہوری رائے پر شب خون مار کر بلوچستان پر قبضہ کیا حالانکہ بلوچ قوم کا فیصلہ واضح تھا کہ وہ نوزائیدہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرکے اپنا اقتداراعلیٰ کسی غیر کے حوالے نہیں کریں گے لیکن یہ جمہوری فیصلہ پاکستان کے لئے ناقابل قبول تھا اور پاکستان کا جو کہ نوآبادیات کے مقاصد پوری کرنے لیے وجود میں آیا تھا جسے نہ عالمی جمہوری اصولوں سے کوئی سروکار تھا اور نہ ہی اسے انسانی اور رقومی اقدار سے کوئی غرض۔ اسی لیے اس نے بلوچ جمہوری ریاست کے ساتھ غیر جمہوری کھلواڑ کا آغازکیا اس کے بعد آج تک نہ صرف مقبوضہ بلوچستان میں عوامی رائے کو اہمیت دی گئی بلکہ پاکستان کی تاریخ کے بیشترحصے میں فو ج بلاواسطہ اور باقی دورانیے میں بلواسطہ حکمرانی کرتارہاہے جیساکہ آج کل فوج حکومت میں نہ ہوتے ہوئے حکمران ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ ہی مختلف ہے۔ بلوچ قوم میں قومی غلامی کا احساس ہمیشہ شدت سے موجود رہا ہے۔پاکستا ن ہیئتِ مقتدرہ کو ہمیشہ یہ خوف دامن گیر رہاہے کہ بلوچ کسی بھی وقت قبضے کو چیلنج کرسکتا ہے اور بارہاایسا ہوابھی ہے کہ بلوچ قوم نے اپنی آزادی کے لئے تحریک چلائی ہے اورموجود تحریک تاریخ کی سب سے بڑی تحریک ہے جومختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھ رہاہے ۔ اس لئے تاریخ کا مشاہدہ یہی بتاتاہے کہ قبضے کے بعد بلوچستان کو فوجی اسٹبلشمنٹ براہ راست خود کنٹرول کرتا چلاآرہاہے۔ زمانہ جنگ ہویاجنگ کا تسلسل ٹوٹ چکاہو تو دونوں صورتوں یہاں حکومت فوج اورخفیہ ادارے کرتے رہے ہیں اور جو لوگ نمائندے کے طورپر سامنے لائے جاتے ہیں وہ فوج کے منظورِ نظر ہوتے ہیں۔ ان نام نہاد نمائندوں کے پاس اختیار ہی نہیں ہوتاہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرسکیں بلکہ وہ ہمیشہ فوج کے تابع مرضی ہوتے ہیں ۔

بلوچ قوم مکمل طورپر اپنی قومی تحریک سے وابستگی رکھتے ہیں اورپاکستان کے کسی آئینی و دستوری نظام سے سروکار نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے میں یہاں انتخابات کا ڈھونگ پاکستان کے لئے بہت زیادہ اہمیت اختیار کرجاتے ہیں کہ دنیاکو دکھایا جائے کہ بلوچ قوم پاکستانی فریم ورک میں خوش اور حصہ داری کررہی ہیں جس کاسب سے اہم اظہار انتخابات کی صورت میں ہوتاہے لیکن گزشتہ انتخابات کے بائیکاٹ نے پاکستان کے چودہ طبق روشن کردیئے۔ گزشتہ انتخابات کی بلوچ قوم پرست پارٹیوں کے بائیکاٹ کال کے باوجود پاکستان نے بلوچ قومی منحرف پارٹیوں پر تکیہ کیاتھا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق انتخابات میں بلوچ عوام کی شرکت کو یقینی بنائیں گے لیکن منحرف پارٹیاں بلوچ قوم کا سامناہی نہیں کرسکے کجاکہ وہ لوگوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے باہر نکالیں ۔

گزشتہ انتخابات کے دوران فوج کاپھیلاؤ موجودہ حالات کی نسبت قدرے کم تھی لیکن فوج کی دہشت پیہم جاری تھی۔ آپریشن چل رہے تھے ،فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لوگ حراست بعد لاپتہ اور شہید کئے جارہے تھے ،ڈیتھ سکواڈ ز کے مظالم بھی موجودہ دور سے کم نہ تھے۔ ان تمام مظالم کے باوجود بلوچ قوم نے پاکستانی انتخابات کا تاریخی بائیکاٹ کرکے عالمی برادری کو واضح پیغام دیا کہ بلوچ قوم پاکستان کے زیر قبضہ کسی بھی ایسے عمل میں حصہ نہیں لے گا جس سے قبضے کو تقویت ملے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ووٹنگ کی شرح نہ ہونے کی برابررہی۔ کہیں ایک دو فیصد اور کہیں اس سے بھی کم۔ ان انتخابات میں بلوچ قوم نے پاکستان اورعالمی دنیا کو واضح پیغام دیا کہ فوج کے دہشت ،قومی منحرفین کی کارستانیاں انہیں قبضہ گیر کے نام نہاد دستور کا حصہ نہیں بناسکتے ہیں۔

انتخابات کی واضح ناکامی کے باوجود پاکستان نے اپنے ایجنٹوں کو منتخب قراردے کر انہیں پانچ سالوں کے دوران ربر اسٹیمپ کی طرح استعمال کیا۔ بلوچ نسل کشی کے پروانوں پر دستخط کرائے اور ان پارلیمانی پارٹیوں کے ذریعے مزید ڈیتھ سکواڈ منظم کئے اور بلوچ نسل کشی کے عمل میں ہوشربا تیزی لائی گئی۔ ان پانچ سالوں میں گزشتہ کسی بھی دورسے زیادہ قتل وغارت ہوئی ہے اوریہ سب کچھ نام نہاد قوم پرست نیشنل پارٹی کے سرکار میں ہوتے ہوئے جاری رہا۔ اجتماعی قبروں سے لے کر اجتماعی آبروریزی کے واقعات تک جیسے ہولناک واقعات ان پانچ سالوں کے دوران ہی رونم اہوئے۔ سی پیک جیسے تباہ کن منصوبے بلوچستان کے طول عرض میں تباہی مچارہی ہے۔ گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے جاچکے ہیں ۔یہ تو وہ منصوبے ہیں جو سامنے آئے ہیں، نہ جانے بلوچ قومی تباہی کے کتنے منصوبے زیرغور ہیں کیونکہ چین اور پاکستان کے درمیان جتنے معاہدے ہوئے ہیں ان کا بہت ہی کم حصہ منظرعام پر لایا گیا ہے۔

آخر کیوں بلوچ پرستی کے دعویدار فوج کے سامنے احتجاج تک نہیں کرسکے ؟

اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ آج بلوچ سیاست میں ایک جانب آزادی کی تحریک ہے جونشیب و فراز سے گزرتے ہوئے منزل کی جانب بڑھ رہاہے تو دوسری قومی کاز کے منحرفین، قومی وسائل لوٹنے والے استحصالی اور پاکستانی مراعات و مفادات کے لئے فوج و خفیہ ایجنسیوں کے سامنے سجدہ ریز نام نہاد قوم پرست پارٹیاں ہیں جو طاقت اور دولت کی حصول کے لئے ہر وہ کام کرتے ہیں جوفوج اور خفیہ ایجنسیاں انہیں سونپ دیتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں نیشنل پارٹی نے وہی کچھ کیا جسے پاکستان بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے کارگر سمجھتا ہے۔

یہ سوچنا ہی انسانی سوچ کی توہین ہے کہ بلوچستان میں نمائندے عام عوام کی منشا اور مرضی سے منتخب ہوتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو گزشتہ انتخابات کی ناکامی کا اعلان کیا جاتا کہ بلوچ عوام نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے لہٰذا بلوچستان میں ان کا کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں رہا۔ لیکن بائیکاٹ کے باوجود اسمبلی بھی بنی اور جمہوریت کے نام پر سرکار بھی چلائی گئی اور اس سرکار کا کا م فوج کے حکم کا تعمیل تھا اور آئندہ بھی جن لوگوں کو منتخب قرار دیا جات اہے ان کے لئے بنیادی شرط قومی تحریک اور بلوچ قومی مفاد کے خلاف کام کرنا ہوتا ہے۔ اس میں سیاسی و غیر سیاسی ،مذہبی و غیر مذہبی کی کوئی تفریق اورتخصیص نہیں ہے۔ جو زیادہ شریک جرم ہوتاہے وہ پاکستانی فوج کا اتناہی قریب اورمنظورِ نظرہوتا ہے۔ موجود انتخابات میں حصہ داربلوچ قومی نسل کشی میں پاکستانی ریاست اور فوج کے ساتھ جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔

26مئی کوجب ان انتخاب کا اعلان کیا گیا تو بلوچ قوم پرست پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ سمیت آزادی پسند تنظیموں اورشخصیات نے  انتخابات کو بلوچستان پر غیر قانونی قبضے کو مضبوط اور قانونی جواز بخشنے کا حربہ قرار دے کر مسترد کیا اور بلوچ قوم سے اپیل کی کہ ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ لیکن گزشتہ انتخابات کی ناکامی کو مدنظررکھ کراس بار فوج ، خفیہ اداروں اورپارلیمانی پارٹیوں کے ڈیتھ سکواڈزنے مل کرنے بلوچستان بھر میں نئے انتخابات کے لئے راہ ہموارکرنے کے لئے بہت پہلے کام شروع کیا تھا۔بلوچستا ن کے طول وعرض میں جاری آپریشن اورنسل کشی کے سلسلے میں مزید تیزی لائی گئی۔موجودہ وقت میں فوجی بربریت کا مقصد قومی تحریک کو کچلنے کے ساتھ ساتھ ان انتخابات میں لوگوں کو بزور طاقت ووٹ ڈالنے کے لئے مجبورکرنا بھی ہے۔

25 جولائی 2018 میں منعقد ہونے والے نام نہاد انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے پاکستانی فوج بلوچ قوم پر کیسا ظلم ڈھارہی ہے، اس کا اندازہ اس خصوصی دستاویزی رپورٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

فوج ،خفیہ ادارے اور پارلیمانی پارٹیاں نام نہاد انتخابات میں بلوچ عوام کو شرکت پر مجبورکرنے لئے جو بہیمانہ اور ظالمانہ طریقے استعمال کر رہے ہیں، ان میں سے چند درجہ ذیل ہیں۔

1: لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بڑے بڑے فوجی کیمپوں اور چوکیوں کے قریب منتقل کرنا ہے ۔
2: لوگوں کو اٹھا کر اذیت رسانی کے بعد اس شرط پر رہا کرنا کہ وہ ووٹ کاسٹ کرینگے۔
3:۔فرداََ فرداََ فوج کی جانب سے فون کرکے دھمکی دینا کہ ووٹ کے لئے نہیں نکلے توانجام برا ہوگا۔
5:۔لوگوں کے شناختی کارڈ ضبط کرنا کہ ووٹ کے لئے آنے کی صورت میں کارڈ واپس دیے جائیں گے اور اگر ووٹ کے لئے نہیں آئے تو سنگین نتائج کے لئے تیار رہیں ۔
6:۔حالیہ مہینوں میں آپریشن کے دوران اٹھائے گئے افراد کی کثیر تعداد میں سے چند لوگوں کو اس شرط پر رہا کرنا کہ نہ صرف خود ووٹ کے لئے آؤ گے بلکہ اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو مجبور کروگے۔

پچھلے چند ہی مہینوں میں جبری نقل مکانی کے شکار چند خاندانوں پر ہونے والے مظالم پہ ایک نظر ڈالی جائے گی تاکہ جبری نقل مکانی سے ان لوگوں کی معاشی اورسماجی زندگی کس بھیانک طریقے سے متاثر ہوچکی ہے۔

ساٹھ سالہ فتح محمد ولد دوست محمد اپنی بیوی صاحبی ،بیٹوں اوربہوؤں کے ساتھ محنت سے بھرپورمگر خوش حال زندگی گزار رہے تھے ۔یہ لوگ ضلع آواران کے تحصیل جھاؤکے علاقے گجروندی نیل تاکی گاؤں میں رہتے تھے ۔گجروایک ندی ہے جو سورگرکے بلند وبالا پہاڑوں سے نکل کرجھاؤکے نشیبی علاقوں میں بہتاہے ۔اس ندی کے کناروں پرجابہ جا بھینٹ آباد ہیں جن میں کھجور ،آم اورلیمو کے چھوٹے بڑے باغات ہیں ۔فتح محمد کا بھی ایک باغ تھا جس میں سوسے زائدکھجور،آم اورلیموکے درخت موجود تھے۔بچے محنت سے باغ کی سینچائی کرتے اورآم اورلیموجھاؤاوربیلہ میں جاکر بیچتے اورکجھور اپنی ضرورت کے لئے محفوظ کرتے۔اس خاندان کے پاس تین سو کے لگ بھگ بھیڑ وبکریاں تھے ۔

اچانک سیکورٹی فورسز کے دھمکی آنے شروع ہوئے کہ یہاں سے نقل مکانی کریں لیکن اپنے آباؤ اجداد کی زمینوں اور محنت سے سینچے گئے باغات اورمویشیوں کے چراگاہ کو چھوڑ کرچلے جانا اس خاندان کے لئے آسان نہ تھا لہٰذا دھمکیوں کو نظرانداز کرتے رہے۔ پھر فورسز نے انہیں بگاڑی زیلگ کے کیمپ میں پیش ہونے کاحکم دیا۔ فتح محمد کئی بار کیمپ میں پیش ہوا لیکن فوج نے قطعی حکم دیا کہ اب انہیں اس پہاڑی علاقے سے کوچ کر نشیبی علاقوں میں نقل مکانی کرنا ہوگا۔

بلآخر 19جون 2018 کوفتح محمد کے خاندان نے بڑی حسرتوں سے اپنے آبائی علاقے کو چھوڑ کر یہاں سے ستر کلومیٹر دور ملاں تحصیل جھاؤ ضلع آواران نقل مکانی کی۔ فتح محمد اپنے پندرہ فیملی ممبران کے ساتھ ملاں میں مہاجر کی زندگی گزاررہاہے۔ بچے خوراک کے کمی کا شکار ہیں ،روزی کے ذرائع وہی نیل تاکی میں رہ گئے ہیں ،اب یہاں نہ ان کے پاس روزگار کے ذرائع دستیاب ہیں نہ مویشیوں کے لئے چراگاہ۔ غربت ،مہاجرت اور بےبسی اب اس خاندان کا مقدربن چکا ہے۔

یہ صرف فتح محمد کا قصہ نہیں ہے بلکہ پورانیل تاکی کا گاؤں مہاجرت کرکے نشیبی علاقوں کے فوجی کیمپوں کے قرب و جوار میں پناہ گزین بن چکے ہیں ۔

کیاہم اپنے آبائی علاقے میں واپس جاسکیں گے؟

’’یہ آپریشن پہلے کے آپریشنوں سے بہت ہی مختلف تھا۔ پہلے فوج آکر ہمارے گھروں کوجلا ڈالتا، ہم پر تشدد کرتا، لیکن اس بار فوج نے ایک ہی دن میں نقل مکانی کا حکم دیا ۔ہمارے پاس اس حکم کو ٹالنے کا طاقت نہ تھا۔ ایک ہی دن میں آبائی مسکن کوفوج کے حکم پر چھوڑ کر گھر بار لئے نقل مکانی کیا،اب کیاہے ؟چند لکڑیاں ٹکاکر ان پر گھاس پھونس ڈال کر سایہ بنائی ہے ،اب یہی ہے ہمارا گھر،یہی ہماری دنیا‘‘
نورا ولد میر محمد ساکن درمان بھینٹ جکرو نے یہ الفاظ بڑی مشکل سے ادا کئے ،خوف ،مایوسی ،بے بسی نے اب اس خاندان کا احاطہ کیاہوا ہے ۔یہ لوگ منتظر ہیں کہ کب فوج کی جبری نقل مکانی کا فیصلہ بدلے گا اور یہ لوگ دوبارہ اپنے آبائی علاقے جاسکیں گے ،جہاں وہ چشمے کا صاف پانی پیتے تھے اورسارا سال بہتے ندی سے کھیت سیراب کرتے تھے اورباربارکے فوجی آپریشنوں کے باوجود ہنسی خوشی کی زندگی گزاررہے تھے مگر اس کا امکان نظر نہیں آتا۔

دولڑکے اورتین بچیوں کے ساتھ نورمحمد کو فوج نے 29جون 2018 کو جبری نقل مکانی کا شکار بنایا۔یہ خاندان ضلع آواران کے علاقے پونڈوکی پیراندر میں آرمی کی چوکی سے محض ڈیڑھ کلومیٹرکے فاصلے پرکھلے آسمان تلے پڑے ہیں یہ فوج کا حکم ہے جسے ٹالناموت کودعوت دینے مترادف ہے۔

جھکرو کا پورا گاؤں جبری نقل مکانی کا شکار ہوکر آواران کے مختلف علاقوں فوجی چوکی اور کیمپوں کے قریب انتہائی مشکلات سے دوچار زندگی گزاررہے ہیں ۔

’’آخر ہماراجرم کیاہے ‘‘
ملنگ ولد عبداللہ کا عمر پچاس سال ہے مگر چہرے پر بڑھاپے کے آثار شدید غربت کا غمازی کرتے ہیں ،ملنگ پیشے کے لحاظ سے کاشتکار ہیں۔وہ ضلع آواران کے تحصیل جھاؤ میں نرمگی نام کے ایک گاؤں میں پشتوں سے رہ رہے تھے۔ نرمگی فوج کے قریبی کیمپ ڈولیجی کیمپ سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پرشمال کی جانب واقع ہے ۔ یہ لوگ اب ملائی گزی میں جھونپڑیوں میں پناہ گزین کی طرح رہتے ہیں ۔
ان لوگوں نے اپنے آبائی زمین اور گھروں کو کیونکر چھوڑ ا؟
عبداللہ نے بتایاکہ ’’15 مئی شب کے4 بجے کے وقت سیکورٹی فورسزکے اہلکاروں کے بوٹوں کی آواز سے آنکھ کھلی تو کیا دیکھتاہوں کہ ہم پوری طرح گھیرے میں ہیں ۔فوجیوں نے مجھے مارنا شروع کیا تو بچے رونا شروع ہوئے لیکن انہوں نے بچوں پر تشدد شروع کیا ،میں حیران تھا آخر ہمارا جرم کیاہے؟
پھر کیاہوا ،کیا یہ اکیلے ملنگ کے ساتھ ہورہاتھا ؟
ملنگ نے بتایا ’’خوف کے عالم میں وقت کا پتہ نہ چلا،اب دن کا اجالاپھیل چکاتھا ،پورا گاؤں محاصر ے میں تھا ،فوجی لوگوں کومارتے ہوئے ایک جگہ جمع کررہے تھے ۔ ہمیں ایک لائن میں کھڑا کرکے وہ (فوجی اہلکار)ہم پر تشددکررہے تھے ،ہمیں گالیاں بک رہے تھے ۔فوجیوں نے کہا ’’گاؤں چھوڑ کر یہاں سے ملائی گزی چلے جائیں ۔ہمارے پاس دوسرا راستہ نہیں تھا ہم نے نقل مکانی کیا ،اپنے گھروں کو چھوڑ دیا ، زمین یہاں سے بہت دور ہیں ، ،اب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے ‘‘۔

اب ملنگ کے خاندان نے نقل مکانی کرکے ملائی گزی میں پناہ لی ہے ،ملائی گزی اورملنگ کے آبائی گاؤں کے درمیان نال کور (بلوچستان کے بڑے دریاؤں میں سے ایک )بہتاہے ۔ملنگ نے بتایا کہ ’’ہم کاشتکار لوگ ہیں ،زمین یہاں سے کئی کلومیٹردور ہیں ،درمیان میں نال کور (ندی )ہے ،سیلاب اور مون سون کے موسم میں اس دریا کو پار کرنا ناممکن ہوتاہے ،جب ہم اپنے گاؤں میں تھے تو پورے دن کے ساتھ ساتھ رات کے ایک پہر تک کھیتوں میں کام کرتے تھے ،اب فوج کہتاہے کہ دن کی روشنی میں صرف کام کرسکتے ہیں ،دوسے تین گھنٹے تو آنے جانے میں لگتاہے ‘‘
ملنگ کے پورے گاؤں کا قصہ یہی ہے۔ یہ لوگ کوہڑوکے مرکزی کیمپ سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر فوج کے حکم پر رہنے پر مجبور ہیں۔ اپنے ہی علاقے میں پناہ گزین ہونا ایساہے، جیساکہ آپ جاڑے ،گرمی ،بارش ،برسات میں اپنے گھر کے صحن میں رہنے پر مجبورہوں مگر سرچھپانے کے لیے اندر داخل نہیں سکتے ہوں۔

’’ان لوگوں کا جنتی ارضی نہ رہی ‘‘

’’تہارمہ ‘‘نام کی ندی سورگرکے مشہور پہاڑی میں منفردنام ہے۔تنگ سی ندی ہے، اس لئے نام تہارمہ(اندھیرا)پڑا،سارابہنے والے اس ندی میں جہاں جہاں آبادکرنے کے لئے چھوٹی سی جگہ مل گیاہے ،ان لوگوں نے اپنے حیرت انگیز محنت سے ان چھوٹی چھوٹی جگہوں کو خوبصورت باغوں میں بدل دیئے ہیں۔ان باغوں میں کجھور،انگور،انار،لیموں،آم اورمہندی کافی مشہورہیں۔ ان باغوں میں یہ لوگ ہر موسم میں فصلیں بھی اگاتے ہیں۔ فصلوں میں چاول،پیازاورسبزیاں پیدا کرتے ہیں ۔

سورگرکے لوگ کافی جفاکش ہیں۔ تنگ ندیاں اورلوگوں کی حیرت انگیز محنت ۔۔۔پینسٹھ سالہ ناکوملو(ملنگ )ولد میردوست سکنہ تہارمہ ندی سورگر کی بلندوبالامیں رہتے تھے ۔اکلوتے بیٹے نذیر،پیاری بہو ،ایک باغ کا مالک ،دوسوبھیڑ بکریوں کے مالک ناکوملوباغوں کے میوے جھاؤاوراورناچ میں بیچتے تھے اوروہاں گھرانے کے راشن لاتے تھے ۔
جب سورگرمیں جاسوس طیاروں اورہیلی کاپٹروں نے گشت شروع کیاتو ناکوملونے یہ علاقہ ازخود چھوڑ دیا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ چند جھونپڑیوں پر مشتمل اس چھوٹی سی بستی کو پاکستانی فوج سرمچاروں کا ٹھکانہ قراردے کر کسی وقت نشانہ بناسکتے ہیں۔اس خوف نے انہیں ازخود یہ دوردراز علاقہ بڑے ارمانوں سے چھوڑکر نیل تاکی میں پناہ لینے پہ مجبور کیا۔یہ بھی پہاڑی علاقہ ہے یہاں مویشیوں کے لیے چراگاہ تو تھا لیکن اپنے باغ اورآبائی زمینوں سے محروم ہوگیا۔
پھر فوج کا حکم آیاکہ نیل تاکی کے سارے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرکے کیمپوں کے قریب بس جائیں ،نیل تاکی کے دوسرے لوگوں کی طرح ناکوبھی جبری طورپر نقل مکانی کاشکار ہوگیا۔یہ ناکوملوکا دوسری نقل مکانی تھی ۔
ندی تارماہ میں دو چھوٹے چھوٹے باغات تھے، ان باغات کو اپنی مدد آپ آباد کرتے ہوئے اپنے گھرکا گزر بسر کیا کرتے تھے۔
ملنگ کے ہاں 150 سے زائد بکریاں تھے لیکن بوجہ جبری نقل مکانی سارے مال مویشوں اورآباد باغات سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں۔

’’آہ و فغان کا تصویر‘‘
ساٹھ سالہ عبدالمجید ولد پنڈوک سکنہ دراجکور ضلع آواران بلندوبالا پہاڑی سلسلے میں بیس خاندانوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی میں کلاسیک بلوچ طرز زندگی کا بہترین نمونہ گزاررہے تھے ۔ان کی شیردل اہلیہ بی بی سومری ہردم مہمان نوازی میں کمربستہ۔اس پہاڑی سلسلے کے لوگ اپنی مہمان نوازی کی وصف سے بہت مشہور ہیں یہاں سے کوئی مہمان بلوچی سجی کھائے بغیر واپس نہیں آیا۔
عبدالمجید اپنے علاقہ کے معتبرشخصیت مانے جاتے ہیں۔ علاقے کے مسائل انہی کی درپر حل ہوتے تھے ۔ یہاں لوگ مال مویشی پالنے سے اپنی گزراوقات کرتے تھے۔ زندگی اپنی ڈگر پر روان تھی کہ ’’پاکستان کی فوج نے اس علاقے میں آپریشنوں کا ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز کیا۔ 6 جون 2017 کو ہونے والا آپریشن تباہ کن تھا۔ اس آپریشن نے دراجکور کی اس بستی کو ہمیشہ کے لئے اجاڑدیا۔صبح فجر کی سفیدی نمودار ہوتے ہی ہیلی کاپٹروں کی گڑگڑاہٹ سے گاؤں واسیوں کی آنکھ کھلی تواس وقت تک زمینی فوج بھی پہنچ گیا ۔

دراجکور کے ایک باشندے نے بتایا’’ہیلی کاپٹر بالکل نیچی پروازیں کررہے تھے ،فوجیوں نے ہمیں اکھٹا کیااور ہم پر تشدد شروع کیا۔اس کے بعد انہوں نے ہم سب کے گھروں کو نذرآتش کرنا شروع کیا،ہمارے گھرہماری آنکھوں کے سامنے جل رہے تھے لیکن ہم بے بس تھے۔ فوج نے نہ صرف ہمارے گھروں کو جلاڈالابلکہ ہمارے مویشی بھی ہانک کر لے گئے ۔‘‘

اس آپریشن کے بعد عبدالمجیدکے بستی کے لئے وہاں کچھ نہیں رہ گیا۔ اس بستی کے باسیوں کووہاں سے نقل مکانی کرناپڑاکیونکہ یہ آخری آپریشن نہیں تھا بلکہ اس کے بعدمتعدد آپریشن ہوتے گئے۔ نقل مکانی کے بعدیہ لوگ جھاؤ کے علاقے نوندڑہ میںآبادہو گئے۔ یہاں سے آرمی کاڈولیجی میں بہت بڑا کیمپ ہے جہاں سے ان لوگوں پر باآسانی نظررکھ سکتاہے ۔

’’باغات کے مالک سائے کے لئے ترس رہے ہیں ‘‘
پینتالیس سالہ واجو ولد باہوٹ سکنہ شش بھینٹی گجرو میں رہائش پذیر تھے۔ یہ ان کا آبائی علاقہ ہے یہاں زندگی بہت کٹھن سہی مگرڈراورخوف سے آزادتھے ۔ان کی چھوٹی سی بستی تھی جس میں واجو کے علاوہ اس کے دوبھائی عبدالصمد اورمحمدحسن اورایک بہنوئی رہتے تھے ۔یہ صدیوں سے ان کے آباؤاجدادکامسکن تھا۔اس چھوٹی سی بستی کے لوگ گلہ بانی اور باغ بانی کرتے تھے۔ ہر شخص کے پاس سودوسوبھیڑبکریاں اور چھوٹی بڑی زمینیں تھیں جن میں خوب صورت باغ تھے ۔واجو ولد باہوٹ کو17 جنوری 2017 کو سکیورٹی فورسز نے ندی گجرو میں عثمان ولد شیخ محمد ،محمد حیات چنال اورمحمد ولد نیک محمد کے ساتھ ایک آپریشن کے دوران گرفتارکیا۔
گرفتاری کے بعدفوج نے انہیں بگاڑی زیلگ کے آرمی کیمپ میں منتقل کر دی پھر بگاڑی زیلگ سے واجو ولد باہوٹ، محمدحیات چنال اور محمد ولد نیک محمد کو جھاؤکے مرکزی تحصیل کیمپ میں منتقل کردی۔ ان میں سے محمدحیات چنال چوتھے دن جبکہ واجو ولد باہوٹ 15 دن بعد رہا ہوئے۔ محمد ولد نیک محمد 3 مہینے بعد رہا ہوئے۔

واجو کی مشکلات کا خاتمہ نہ ہوا بلکہ نومبر 2017 کو ایک بار پھرسیکورٹی فورسز نے انہیں گھرسے حراست میں لے کر کیمپ منتقل کیااوراس دوران ان پر بے تحاشا تشدد کیاگیااورکچھ وقت کے بعد رہاہوئے۔ بار بار فوجی آپریشن اورگرفتاری نے واجو کو اپنے آباواجدادکا مسکن چھوڑکر فوج کے حکم پر بگاڑی زیلگ کے بغل میں منتقل ہوئے ۔
بگاڑی زیلگ آرمی کیمپ کے قریب واجوکا خاندان نے اپنے چند جھونپڑیاں بناکر ان میں رہ رہے ہیں۔ ان لوگوں کی ذریعہ معاش گلہ بانی سے وابستہ تھا اورگلہ بانی کے لئے بہترین جگہ پہاڑہیں مگر واجوسمیت ان کے منتقل ہونے والے خاندان اپنی معاشی ذریعے سے محروم ہوچکے ہیں۔ واجو کے ایک چھوٹے بھائی حسن کے پاس تقریبا 100کے قریب بھیڑ بکریاں تھیں اب چند ہی بکریاں رہ چکے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے زندگی بہت مشکل ہوچکی ہے ۔

’’ماضی ایک گم گشتہ قصہ بن چکاہے ‘‘
پینتالیس سالہ عبدالعزیز ولد عبدالحکیم شمال مغرب میں حسی دراجکورتحصیل جھاؤضلع آواران کے پہاڑی سلسلے میں آباد تھے۔ یہ علاقہ صدیوں سے ان لوگوں کا مسکن تھا۔ حسی دراجکور جھاؤکے شمال مغرب میں جھاو اور مشکے کے بلند وبالا پہاڑوں میں واقع ہے۔ بہت ہی خوبصورت علاقہ ہے لیکن اب عبدالعزیز کے لئے دراجکور ایک قصہ گم گشتہ بن چکاہے۔ عبدالعزیز کا ذریعہ معاش گلہ بانی پر منحصر تھا۔یہ علاقہ جھاؤ سے ساٹھ کلومیٹر دور ہے۔ یہ لوگ راشن کے لئے جھاؤ یا مشکئے چلے جاتے تھے۔ ہر دفعہ چند بھیڑبکریاں بیچ کر تین مہینے کا راشن لاتے تھے ۔
چھ اکتوبر 2010کا دن ان لوگوں کے لئے مصیبتوں کا پہاڑ لے کر طلوع ہوا۔ صبح سویرے آرمی کا قافلہ پہنچ گیا اور پہنچتے ہی گاؤں پر حملہ کردیااوردونوجوان مہمان بلوچ نیشنل موومنٹ کے ممبرسراج احمدولداحمداورخالقدادولدعیسیٰ سکنہ کورک جھاؤکوفوج نے لوگوں کے سامنے اٹھایا اوریہاں سے ان پر تشدد شروع کیا۔ دونوں نوجوان مہمان کورک جھاؤ سے اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے فوج کے نشانے پر تھے اوریہاں پناہ کی تلاش میںآئے تھے۔

فوج نے پورے گاؤں کے گھروں کو نذرآتش کردیا۔ ایک بھی گھر باقی نہیں رہا۔نوجوان تشددسے بے ہوش ہوچکے تھے اور اسی حالت میں فوج انہیں اپنے ساتھ لے گئی اوران کی لاشیں لوگوں کوگاؤں سے ایک فرلانگ دور مل گئیں اور انہیں وہاں دفن کردیاگیا۔
سب کچھ لٹ جانے کے بعد عبدالعزیز نے گھر بار لئے نقل مکانی کرکے جلونٹی نوندڑہ ضلع آواران میں بسنے پر مجبورہوئے۔ اپنے ذریعہ معاش اورآبائی گھروں سے محروم ہوئے مگر یہاں بھی سکون نصیب میں نہیں تھا ایک اور دربدری ان کا منتظر تھا۔
12 مئی 2018 ایک بارپھر سیکورٹی فورسزایک بڑی لاؤ لشکر کے ساتھ نوندڑہ جلونٹی پہنچ کر عبدالعزیزکواہلخانہ سمیت اپنی گاڑیوں پر بٹھاکرکوہڑوجھاؤکے مرکزی کے عقب میں منتقل کیا۔
اب عبدالعزیزاپنے اہلخانہ سمیت ایک جھونپڑی میں محصور ہیں جہاں کوہڑوکے فوجی کیمپ کا سنتری ان پر نظررکھتاہے۔ اب تک عبدالعزیزیہ بھی نہیں جانتاہے کہ انہیں کس جرم کی اتنی بڑی سزا دی گئی ؟

’’دوسری بارنقل مکانی کے شکار لوگ ‘‘
دولت ولد محمد عمرکی عمر35 سال ہے وہ دراجکور جھاؤتحصیل ضلع خضدارکے باشندے ہیں۔ وہ بھی کوہڑوجھاؤکے عقب میں پناہ گزین ہیں۔ انہیں بھی فوج کے مظالم سے دربدری کا سامنا کرناپڑاہے ۔ان کے علاقے میں ایک نہیں بلکہ 2015سے کئی آپریشن ہوچکے ہیں ۔ 4 جون 2017 کوایک ایسے ہی آپریشن میں دولت کاسالہ حضوربخش فوج کے ہاتھوں ماراگیاتوان کے لئے وہاں رہنا ممکن نہ رہاتو انہوں نے دراجکورکوچھوڑدیااور نوندڑہ جلونٹی عطاء محمد شاہوانی گوٹھ میں منتقل ہوئے ۔
12 مئی 2018 کوایک بارپھر سیکورٹی فورسزنے نوندڑہ جلونٹی میں بھی چھاپہ مار کاروائی کے دوران دولت کوبیوی بچوں سمیت اپنی فوجی ٹرک میں بٹھاکر کوہڑوکے آرمی کیمپ کے بغل منتقل کر دیا۔

ان لوگوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے ،گھربار،آبائی زمین اورروزی کے ذرائع سب چھن گئے ہیں ۔

یہ جھاؤ ،مشکئے اور آواران کے پہاڑی سلسلوں میں آباد لوگوں کی کہانی ہے ۔اب ان پہاڑوں میں بمشکل ہی کوئی مالدار بچا ہو،کچھ خاندانوں کو پاکستانی فوج کی بربریت نے نقل مکانی پر مجبور کردیا اور باقی ماندہ لوگوں نے براہ راست نقل مکانی کے حکم پر اپنے آباؤاجداد کے مسکن کوچھوڑفوجی سنگینوں تلے آگئے ہیں ،جہاں ان پروہاں کے سنتری چوبیس گھنٹے نگاہ رکھتے ہیں ۔

اب یہ خاندان فوجی کیمپوں کے بغل مین بے بسی کی تصویر بنے پناہ گزین ہیں۔ نہ انہیں سرکار اور نہ ہی این جی اوز کی طرف سے کسی قسم کی مددفراہم کیاجارہاہے ۔
ان تمام لوگوں کو پہاڑی اور دوردرازکے علاقوں سے جبری نقل مکانی کا شکار بنانے کے پیچھے قومی تحریک کوکچلنے کے ساتھ ساتھ نام نہاد انتخابات کارفرماہیں تاکہ 2013کے تجربے سے بچاجائے ۔ یہاں چند ہی مثالیں پیش کی ہیں گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان نے مشکئے ،آواران ،کولواہ ،جھاؤگچگ ،راگئے ،ناگ ،رخشان سمیت بلوچستان بھرمیں ہزاروں خاندانوں کو جبری نقل مکانی کا نشانہ بنایاہے۔

اگر عالمی برادری ،عالمی میڈیا اورانسانی حقوق کے ادارے پاکستان کے انتخابات میں بلوچ قوم کی رائے معلوم کرناچاہتی ہیں توضرور ان علاقوں کا رخ کریں جہاں بلوچ قوم سے انتخابی بائیکاٹ کا انتقام پاکستانی ریاست ،فوج اور خفیہ ایجنسیاں کس بھیانک اور ہولناک طریقے سے لے رہی ہیں۔