شہداء کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں – خان آف قلات
خان آف قلات میر سلیمان خان نے مستونگ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے رئیسانی خاندان سمیت تمام متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے سے بلوچستان کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
نیکٹا کی جانب سے اس طرح کی دھمکیوں اور حملوں کی پیشگی اطلاع کے باوجود ان کے تدارک اور روک تھام کے لئے کیوں بے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع سے قبل اقدامات نہیں اٹھائے جاتے جو اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواء میں بلوچ، پختون، ہزارہ سمیت دیگر کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے، کیا ان کا خون اتنا ارزاں ہے۔
حالانکہ فرقہ وارانہ، مذہبی، دہشت گردانہ تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر پنجاپ میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی کے بارے میں ارباب اختیار کو مکمل آگاہی ہے اور وہاں پر اس طرح کے واقعات کیوں رونما نہیں ہوتے ، ان کے خاتمے کے لئے کیوں وسائل بروئے کار نہیں لائے جاتے۔
جاری کردہ بیان میں سلیمان داؤد نے کہا کہ سانحہ مستونگ نے آج بلوچستان پسماندہ صوبے سمیت دیگر علاقوں میں بسنے والوں کو افسردہ کردیا ہے جس سے ہر آنکھ اشکبار ہے اس سانحہ میں شہید ہونے والے غریب لوگ نان شبینہ کے محتاج تھے جن کو ٹارگٹ کیا گیا۔ شہید کے خاندان سمیت دیگر شہداء کے خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور میں متاثرہ خاندانوں کے اس غم اور مصیبت کی گھڑی میں ساتھ ہوں۔
بیان میں کہا کہ سانحہ مستونگ جیسے واقعات بلوچستان کے دور دراز علاقوں سمیت شہروں میں جس طرح وکلاء برادری، پولیس ٹریننگ کالج میں لوگوں کو چھٹی کے باوجود واپس بلایا گیا اور اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں اسی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں تواتر کے ساتھ واقعات کے بارے میں حکومت ادارے نیکٹا بروقت اطلاع ملنا اور لوگوں کو اس کی الرٹ جاری کرنا کے بارے میں معلوم ہے تو سانحات سے قبل ان سے نمٹنے کے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔
حالانکہ ان واقعات میں مذہبی یا فرقہ وارانہ سمیت جو بھی کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں ان کی کڑیاں پنجاب میں ملتی ہے، اس ناسور کو پھیلنے سے روکنے کیلئے کیوں اقدامات نہیں اٹھائے جاتے کہ یہ لوگ بلوچستان اور کے پی کے کو آسان ہدف سمجھ کر بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ کیا بلوچ اور دیگر کا خون اتنا سستا ہے یا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
انہوں نے بیان میں کہا کہ یہ چیز کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ان تنظیموں کو کس نے پالا پوسہ اور پھر یہ لوگوں کے لئے خطرہ بنی اور پانے کام کئے اور ان تنظیموں کے لوگ کہاں چھپے ہوئے اور موجود ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کا محاسبہ ہونا چاہیئے جن کی وجہ سے ہزارہ، بلوچ، پشتون سمیت ہر طبقے کو ٹارگٹ بناکر موت کے منہ میں دھکیلا گیا جو کہ کسی طور بھی انسانی اور آئینی سمیت اخلاقی و اسلامی لحاظ سے بھی درست عل نہیں ہے۔ میں ایک با ر پھر متاثرہ شہداء کے خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعاگوں ہوں کہ اللہ پاک لواحقین کو یہ صدمات برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق دے۔