صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ آج کی خبر نواز شریف کی آمد کے بجائے مستونگ کا افسوس ناک واقعہ تھا جہاں ایک خودکش حملے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ‘پنجابی میڈیا‘ نے بلوچوں کی ہلاکتوں کو اس لیے نظر انداز کیا کیوں کہ انہیں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اشتہارات سے بہت زیادہ مالی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ پاکستانی میڈیا کو آج کے دن متوازن کوریج کرنی چاہیے تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کا پاکستانی میڈیا پر اثر ورسوخ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے پاکستانی میڈیا نے نواز شریف کی ریلی اور ان سے متعلق خبروں کی بھر پور کوریج نہیں کی۔
معروف تجزیہ کار اور صحافی طعلت حسین کا کہنا ہے، ’’ پاکستان کا میڈیا مکمل طور پر سنسرشپ کی زد میں ہے۔ جو بھی واقعہ ہو جس کا فائدہ کسی نہ کسی طرح سے ن لیگ کو ہو اسے میڈیا نہیں دکھا رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ میڈیا کے مالکان پر بہت زیادہ ہے۔ وہ کیبل آپریٹرز کے ذریعے چینلز کو بند کر دیتے ہیں اور باقی انصاف دینے والے اداروں کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ نواز شریف کے خلاف جو تاثر قائم ہو چکا ہے وہ کہیں پاکستان مسلم لیگ نون کی ریلی سے ٹوٹ نہ جائے، اس ڈر سے میڈیا نے ان کی ریلیوں کو نہیں دکھایا۔‘‘
معروف صحافی اور اینکر طلعت حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاہور کے جس علاقے میں وہ موجود تھے وہاں لاکھوں کا مجمع تو نہیں تھا لیکن پچاس ہزار تک لوگ موجود تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ لاہور کی سٹرکوں سے گھوم کر آیا ہوں جہاں ہزاروں کی تعداد میں مسلم لیگ نون کے پر جوش کارکنان موجود ہیں اور یہ مناطر میڈیا نہیں دکھا رہا کیوں کہ یہ مناظر دکھانے سے الیکشن کے ماحول پر اس کا اثر پڑتا ہے اور جو الیکشن کے خاص نتائج چاہتے ہیں وہ سیاسی ماحول کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
معروف صحافی ناصر عباس نے لکھا،’’ کسی چینل نے لاہور میں مسلم لیگ نون کی ریلی میں شریک افراد کی درست تعداد نہیں بتائی۔ یہ بہت مایوس کن ہے لیکن میڈیا پر دباؤ بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘