کراچی کا علاقہ لیاری وہ واحد جگہ ہے جہاں کھیل کے لیے ان کا جذبہ ہر چیز پر سبقت لے جاتا ہے، پھر چاہے یہ سبقت یہاں کے عوام کی سیاسی وابستگی پر ہی کیوں نہ ہو۔
فیفا ورلڈ کپ کے آغاز سے لیاری میں جگہ جگہ یہاں کے رہائشیوں کی من پسند ٹیموں کے جھنڈے سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں سے زیادہ نمایاں نظر آرہے ہیں، جس نے یہاں برسوں سے جیتنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے کہ وہ فٹبال کے شائقین، جو ان کے ووٹر بھی ہیں، ان کو انتخابی مہم کی طرف کیسے متوجہ کریں۔
کیونکہ فٹبال ٹیموں کے جھنڈوں کی اکثریت دیکھ کر یہ تاثر مل رہا ہے جیسے آنے والے انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری دیگر سیاسی جماعتوں کے بجائے، برازیل اور دیگر فٹبال ٹیموں کے مدمقابل انتخابات لڑ رہے ہیں۔
لیاری میں اب تک 40 سے زائد سکرینیں لگ چکی ہیں اور مزید سکرینیں لگوانے کی گنجائش پیدا کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی ناک آؤٹ راؤنڈ میں لیاری کی اکثریت عوام کی پسندیدہ ٹیم برازیل کی شمولیت کے بعد سے شائقین رات گئے تک گلیوں میں میچ دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اور کون سی ٹیم ناک آؤٹ ہو گی، اس پر شرط لگنا شروع ہو چکی ہیں۔
فٹبال شائقین کا رات بھر میچ دیکھنا اور دن میں دیر سے اٹھنے کا براہ راست اثر پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم پر پڑ رہا ہے۔
پی پی پی کی انتخابی مہم کمیٹی کے رکن اور لیاری کے سابق ناظم عبدالرشید بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ فیفا ورلڈکپ کے ناک آؤٹ میچ اور انتخابی مہینے کے ایک ساتھ شروع ہونے کا ہے۔
’اس کی وجہ سے کارنر میٹنگ نہیں ہو پا رہیں۔ اور اگر ایک آدھ ہوئی بھی ہیں تو ان میں نفری ناکافی تھی۔ اس وجہ سے ہم ورلڈ کپ کے فائنل کے منتظر ہیں جو 15 جولائی کو ہو گا کیونکہ لیاری میں انتخابی مہم کا آغاز تبھی ہو پائے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا دس دن کا وقت انتخابی مہم کے لیے کافی ہو گا، تو انھوں نے کہا کہ ’کافی تو نہیں ہے، لیکن اس وقت مجبوری بھی ہے۔ یہاں کی عوام کی زیادہ تر توجہ فیفا پر ہے تو ہم اس وجہ سے کسی پر زور نہیں ڈال رہے ہیں اوریہاں کی عوام کے ساتھ ہم بھی ورلڈ کپ فائنل کے منتظر ہیں۔‘
فٹبال شائقین میں سے ایک شخص سے لیاری کے علاقے کلری میں بات کرنے کا اتفاق ہوا تو انھوں نے بتایا کہ ان کی پہلی ترجیح ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ میچ ہیں۔ اور اس کے بعد پی پی پی سے وابستگی۔
ی بی سی سے بات کرتے ہوئے علیم بلوچ نے کہا کہ ’جہاں فٹبال اور سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی بات آئے گی تو میری ترجیح بیشک فٹبال ہی ہو گی کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ یہ آخر کے میچ کتنے اہم ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ پی پی پی کے ساتھ دو دہائیوں سے منسلک ہیں اور لیاری کے مختلف علاقوں سے مختلف ادوار میں ہونے والی مہمات میں حصہ بھی لیتے رہے ہیں۔
’لیکن میں اس وقت بلاشبہ فٹبال کو اہمیت دے رہا ہوں اور انشااللہ 15 جولائی کے بعد لیاری میں بلاول بھٹو اور جاوید ناگوری کو ہمارے علاقے سے جتوانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑوں گا۔ بس اس میچ کے دوران مجھ سے کوئی امید نہیں لگائی جائے۔‘
انتخابی مہم میں حصہ لینے والے چند امیدواروں نے کچھ علاقوں میں میچ کی سکرینیں لگا کر پوائنٹ اسکور کرنے کی بھی کوشش کی ہے جس کو وہاں کے لوگوں نے کافی پسند کیا، لیکن سیاسی معمالات تب بھی طے نہیں پائے۔ ساتھ ہی ایک دو امیدواروں نے فٹبال گراؤنڈ سے ہی انتخابی مہم شروع کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن پھر یہ بات سامنے آئی کہ شائقین میچ دیکھنے سے پہلے اور بعد میں سیاسی سے زیادہ کھیل سے متعلق گفتگو کرنا ہی پسند کرتے ہیں۔
لیاری میں پچھلے انتخابات کے دوران یہاں کی عوام کے لیے نمائندے پہلے سے ہی منتخب کر لیے گئے تھے۔ ان میں سے دو ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں لیکن باقی کا کچھ پتہ نہیں۔
لیاری اب پیپلز امن کمیٹی کے عزیر بلوچ اور ان کے باقی ساتھیوں کے اثر سے کافی حد تک باہر تو آچکا ہے۔ لیکن اب بھی اس وقت سے جڑے چند عناصر وہاں موجود ہیں۔ فٹبال میں شامل مختلف ملکوں کی ٹیموں کے جھنڈوں سے سجے لیاری کے علاقے کلری میں اب بھی گولیوں سے چھلنی دیواریں موجود ہیں۔
علیم کے مطابق لیاری میں کوئی اور جماعت نہیں آ سکتی لیکن اس بار لوگ اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر دینا چاہتے ہیں، اور عبدالرشید کہتے ہیں کہ یہاں کے عوام کو متبادل نہیں اپنے ہی چنے ہوئے نمائندوں کی کارکردگی چاہیے۔
لیاری کے عوام کا فٹبال کی طرف رجحان اور سیاسی جماعتوں کے کیمپوں میں طاری خاموشی دیکھ کر لگتا ہے کہ آخرکار لیاری والوں کو فٹبال کی شکل میں سیاسی متبادل مل گیا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو