قلات : الیکشن سے زیادہ ہمیں اپنے سیب کے باغات کی فکر ہے

635

بلوچستان کا علاقہ قلات، کالا کولو سیب کے حوالے سے مشہور ہے اور یہاں کے باغات میں یہ سیب آئندہ 20 روز میں ہو تیار ہو جائیں گے لیکن پانی کی عدم دستیابی نے سیبوں کی افزائش کو متاثر کیا ہے۔

بجلی کی عدم دستیابی کے باعث جنریٹر چند گھنٹے ہی چل پائے ہیں اور نتیجے میں سیبوں کا سائز کم ہو گیا ہے، اس صورتحال نے باغ کے مالک محمد اقبال کو پریشان کر رکھا ہے۔

سیاسی گہماگمی سے دور اس علاقے میں لوگ اپنے سیبوں کے لیے زیادہ فکر مند ہیں انھیں اس بات کی پریشانی نہیں کہ کس کو ووٹ دیں۔ اس رویے کی ایک وجہ شاید امیدواروں کا یہاں نہ آنا بھی ہے۔

محمد اقبال کا کہنا ہے کہ یہ امیدوار جو بڑے لوگ ہیں ان کے پاس جاتے ہیں جو غریب ہیں، اس کو ایسے ہی میدان میں چھوڑ دیتے ہیں یعنی اگر کام ہو جائے تو بھی اگر نہ ہو پھر بھی ہی ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

قومی اسمبلی کا حلقہ 267 تقریباً 500 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، ایک طرف یہ ضلع کوئٹہ تو دوسری طرف یہ خضدار ضلع سے جا ملتا ہے، اس میں مستونگ، قلات اور سکندر آباد اضلاع شامل ہیں جس نے اسے رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا ایک وسیع ترین حلقہ بنا رکھا ہے۔

قلات سے تقریباً 120 کلومیٹر دور مستونگ کے ایک قصبے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار منظور بلوچ اپنی مہم میں مصروف ہیں۔ ملک کے دیگر علاقوں کے برعکس انھیں کم وقت اور کم اخراجات میں پانچ سو کلومیٹر پر مہم چلانی ہے اور مقررہ اخراجات صرف 40 لاکھ روپے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن کے جو ضابطہ اخلاق ہے اس کی پیروی کریں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ان تین اضلاع میں اگر الیکشن کمیشن کی مقررہ رقم سے تین گنا زیادہ خرچ کریں پھر بھی اپنے ووٹر تک نہیں پہنچے سکتے۔

اسی لیے بلوچستان میں ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے کیونکہ لوگوں کو شعور نہیں ہے کہ وہ خود آ جائیں اس کے لیے امیدوار کو جانا پڑتا ہے، اس صورتحال میں یہاں کہ امیدوار کے لیے زیادہ چیلنج ہے۔

بلوچستان میں بجلی کی فراہمی بڑے شہروں تک محدود ہے، جس کی وجہ سے ٹی وی چینلز اور اخبارات سمیت ابلاغ عام کے ذرائع محدود ہیں، شرح خواندگی بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں یہاں کم ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں کا فقدان ہے۔

بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ اس کا وسیع رقبہ بھی ہے، منتخب اراکین کے فنڈز اور ترقیاتی منصوبے مخصوص علاقوں تک محدود رہتے ہیں، جس کی وجہ سے تمام آْبادی مستفید نہیں ہو پاتی۔

نیشنل پارٹی کے امیدوار سردار کمال بنگلزئی این اے سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں اس بار وہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں تو وہ سوراب نہیں جا سکے تھے صرف ٹیلیفون پر ہی رابطہ رہا۔

’ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب ہم لوگوں کے پاس ووٹ کے لیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ پانچ سال کہاں تھے؟ اتنے بڑے علاقے ہوتے ہیں ان میں ڈویلپمنٹ کا مسئلہ ہوتا ہے، انسانی آبادی پھیلی ہوئی ہوتی ہے انھیں سکول، بنیادی صحت مراکز اور دیگر سہولیات فراہم کرنی ہوتی ہیں اس کے لیے فنڈز زیادہ درکار ہیں لیکن کر نہیں پاتے۔ کیونکہ فنڈز اتنے نہیں ہوتے جتنا بڑا حلقہ ہے۔

    مزید پڑھیں  –  مستونگ : زمینداروں نے مختلف مقامات پر روڈ بلاک کردیا

پاکستان میں وفاق اور صوبوں میں مالیاتی وسائل کی تقسیم کے فارمولا میں ایک عنصر ایریا بھی۔

سردار کمال بنگلزئی کا کہنا ہے کہ جتنے اضلاع ہیں ہر ضلع میں قومی اسمبلی کی ایک نشست ہو تب جا کر کچھ نہ کچھ کر پائیں گے

بلوچستان کے وسیع رقبے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے مقررہ انتخابی اخراجات کی حد غیر حقیقی لگتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک عام شہری یا متوسط طبقے کو انتخابی عمل میں شریک رکھنے کے لیے حدود کا تعین بھی لازمی ہے۔

بشکریہ –