سراج رئیسانی قتل کے محرکات و اثرات؟
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
کل بلوچستان کے علاقے مستونگ درینگڑھ میں پاکستانی خفییہ اداروں کے تخلیق کردہ ڈیتھ اسکواڈ اور موجودہ پاکستانی آرمی کی بے ٹیم، بلوچستان عوامی پارٹی کے سرغنہ بلوچ قومی تحریک برائے آزادی کے کٹر مخالف اور دشمن پاکستان کے انتہائی وفادار اورحمایتی سراج رئیسانی، پاکستانی نام نہاد الیکشن مہم کے سلسلے میں ایک انتخابی پروگرام کے دوران خود کش دھماکے کا شکار ہوکر اپنے ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا۔ اس حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی اور داعش نے قبول کی۔
سراج رئیسانی بلوچ قومی تحریک کے ابتدائی ایاد سے اسکے خلاف سرگرم عمل رہا ہے۔ وہ پاکستانی فوج کے ساتھ ملکر کئی بے گناہ بلوچوں، جن میں سے بیشتر پر امن بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنان شامل رہے ہیں کے اغواء نماء گرفتاری اور شہادت میں براہِ راست ملوث رہا ہے اور سراوان کے آس پاس علاقوں میں سراج رئیسانی کی غنڈہ گردی، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، بدکرداری، بدمعاشی اور بلوچوں کی زندگی کو اجیرن بنانے کی ایک نہیں بلکہ سینکڑوں دل دہلا دینے والے واقعات رقم ہوئے ہیں۔
سراج کے انہی سیاہ کرتوتوں کیوجہ سے 2012 میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بی ایل ایف نے مستونگ کے مقام پر سراج رئیسانی پر ایک حملہ کیا تھا، جس میں وہ خود بال بال بچ گئے تھے، تاہم انکے بڑے بیٹے اکمل رئیسانی ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد سراج رئیسانی کی مزید چاندی ہوگئی، انہیں پاکستانی خفیہ اداروں نے خوب مالی مدد و عسکری امداد فراہم کرکے کھلی چھوٹ دے دی اور بھرپور انداز میں بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف استعمال کرتا رہا۔
سراج رئیسانی اپنے تشکیل کردہ دہشتگرد جرائم پیشہ گروپ جسے زبان زدِ عام میں ڈیتھ اسکواڈ کے نام سے پکارتی ہے کے ہمراہ، بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف آخری حد تک استعمال ہوتا رہا۔ وہ پاکستان کے بلوچ نسل کش پالیسیوں کے عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے، اور کئی نسل کش واقعات میں ریاستی اداروں کا ہمرکابی کرتے ہوئے برابر شریک رہا۔
دامن پر سجے سیاہ کرتوتوں کے اس طویل فہرست کو لیئے سراج رئیسانی اور اس کے کارندوں کا قتل جس طرح اور جیسے بھی ہونا تھا، اور ہو بھی گیا۔
اوراق سے سراج رئیسانی جیسے سیاہ اور بدھے تاریخی کرداروں کے صفائی کے بعد، یہ امر لازم تھی کہ بلوچ مخلوق میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی، سراج کے مارے جانے کے بعد عمومی طور پر بلوچوں کی یہ خوشی واضح طور پر نمایاں نظر بھی آئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیں کہ سراج سے بےتحاشہ نفرت و غصہ اور مخالفت کی وجہ سے، اسکے ہلاکت کے بعد بلوچوں کی ہمدردی، خوشی اور فخر کی لہریں اب کس رخ، کس سمت جھکیں گی؟ خود کش حملہ آور کی طرف؟ مذہب کی طرف؟ جھنگوی و داعش کی طرف یا بلوچ قومی تحریک آزادی کی طرف؟
یہ ایک آفاقی فطری ردعمل ہے کہ جب بھی کسی انسان کے دل و دماغ میں، کسی بھی چیز اور عمل کے بارے میں مخالفت غصہ اور نفرت پیدا ہوگی تو لازماً دشمن کا دشمن دوست کے مصداق دوسری طرف، دوسرے فریق و قوت کیلئے دل و دماغ میں ہمدری و حمایت بھی پیدا ہوگا۔ ابھی ان بلوچوں کی ہمدردی اور حمایت کا رخ کہاں اور جھکاؤ کس طرف ہوگا؟ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ سراج رئیسانی اور اس کی گروہ کے جبر کاشکار ہوکر عملاً متاثر ہوچکے تھے؟
اس حملے کی ذمہ داری پہلے تو لشکر جھنگوی نے قبول کی، پھر داعش اور تحریک طالبان کی قبولیت کا دعویٰ بھی منظر عام پر آیا۔ ظاہری طور پر اور عملاً یہ تینوں مذہبی تنظیمیں ہیں۔
اب داعش،جھنگوی اور تحریک طالبان پر سطحی تجزیات سے ہٹ کر، گر باریک بینی اور حقائق کے بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو پہلا سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ باقی دنیا جہاں ان کا نام اور سرگرمیاں موجود ہیں چھوڑکر، صرف بلوچستان میں ان کے سرگرمیوں، عزائم، اور مقاصد پر نگاہ دوڑا کی دیکھیں جائیں کے کیا ہیں؟ ماضی میں انکا کرداروعمل کیا رہا اور مستقبل میں ان کا ایجنڈہ کیا ہوگا؟ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں؟ کس کے ماتحت ہیں؟ کس کے پروکسی ہیں؟ ان کا وجود، تخلیق اور پروورش کہاں سے کب اور کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟ آج اور کل بلوچ تحریک اور بلوچ قوم، بلوچ سماج اور بلوچ سیاست پر اس کے کیا مثبت اور منفی اثرات مرتب ہونگے؟
وکلا یا ہزارہ برادی ہوں، چینی ہوں یا مزار و قبر سب انکے ٹارگٹ پر رہے ہیں اور اب سراج جیسا ریاستی ایجنٹ بھی انکے ٹارگٹ پر کیسے؟ آگے کون انکے ٹارگٹ پر ہوگا، یہ کہنا قبل ازوقت ہے، لیکن سوالات و خدشات اور تحفظات ہر ذہن میں موجود ہے۔
سب سے اہم اور خطرناک چیز یہ ہے کہ داعش، طالبان اور جھنگوی اندورنی طور پر اور عملاً جو بھی ہیں، ان کے مقاصد جو بھی ہوں، یہ اپنی جگہ ایک الگ طویل بحث اور وسیع تحقیق و علم کا متقاضی ہے لیکن خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ جو بھی کررہے ہیں اور کرتے آرہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہینگے، وہ مذہبی انتہاء پسند نظریے اور سوچ کی بنیاد پر رہی ہے۔
یعنی اس سوچ و نظریے کے تحت، جس نے پاکستان کو بلوچستان پر قبضہ کرنے کا جواز فراہم کیا۔ وہ مذہبی سوچ ہی ہے کہ پنجاپی اور بلوچ کو بھائی بھائی کی غیر فطری سوچ اور رشتے میں باندھ کر ہمیشہ بلوچ سماج میں پروان چڑھایا گیا۔ وہ مذہبی سوچ ہی ہے کہ بلوچوں کو ہمشہ ہی درس دیتا آرہا کہ بلوچوں کی غلامی بلوچوں پر ظلم و جبر بلوچوں کی بدحالی تباہی اور بربادی خدا کی طرف سے بلوچوں پر عزاب ہے، بس بلوچ صبر سے کام لیکر چپ چاپ برداشت کرتے رہیں، خدا خود اس عذاب کو اٹھائے گا۔ وہ مذہیبی سوچ ہی ہے کہ پاکستان جیسا غیرفطری ریاست اسلام کا قلعہ قرار دیاجاتا ہے، یعنی قلعے کو نقصان دینا، اسلام کو نقصان دینے کے مترادف اور گناہ کبیرہ ہے۔ وہ مذہبی سوچ ہی ہے جس کے بنیاد پر شفیق مینگل، سراج رئیسانی، منیر ملازئی، ملا برکت وغیرہ وغیرہ جیسے دلالوں کو یہ موقع فراہم ہوا کہ وہ بلوچ تحریک کے خلاف سادہ لوح بلوچوں کو کھڑا کریں۔ وہ مذہبی سوچ ہے جو آج تک بلوچ قوم کو ذکری و نمازی، سنی و شیعہ، تبلیغی و بریلوی وغیرہ وغیرہ کے خانوں میں تقسیم کرتا آرہا ہے۔
مذہبی انتہاء پسندانہ سوچ ماضی میں آج اور مستقبل میں بھی، بلوچ سیکولر سماج اور خالص بلوچ نیشنلزم اور بلوچ قومی تحریک آزادی کو جس طرح نقصان پہنچاتا آیا ہے، اور رہے گا، ثابت کرتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک بلوچ نینشلزم اور بلوچ سیکولر سماج اور مذہبی انتہاء پسندانہ سوچ آگ اور پانی کے واضح فرق کی طرح ہیں، جو کبھی ایک ساتھ اور برابر نہیں ہوسکتے، ایک کا وجود دوسرے کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔
کیا بلوچ سماج، بلوچ سیاست اور بلوچ قومی تحریک پر بلوچستان میں بلوچ انتہاء پسندانہ سوچ کی بنیاد پر مسلح کاروائیوں کی وجہ سے، مذہبی رجحانات، مذہبی سوچ اور مذہبی اثرات مرتب نہیں ہونگے؟ گوکہ کاروائی کا ہدف پاکستان یعنی بلوچوں کے دشمن ہوں، جو قابل تحسین ہے لیکن اگر مذہبی سوچ، بلوچ سماج میں مرتب ہونگے، تو اثر پذیر مذہبی سوچ رجحانات و رخ اور عمل کی صورت میں کس طرف ہونگے؟ بلوچ کہاں، کس طرح، کس کے ساتھ وابستہ ہونگے؟ کیونکہ بلوچوں کے دل و دماغ میں ویسے بھی پاکستان اور پاکستان کی ایجنٹوں سمیت پاکستان کے ہر چیز سے نفرت اور مخالفت موجود ہے اور بلوچ قوم خاص طور پر نوجوان اپنا نفرت و مخالفت کے نیتجے میں مزاحمت کا اظہار ضرور کسی نا کسی جگہ پر کرینگے۔
اگر بلوچ نیشلزم اور سیکولر سوچ سے ہٹ کر مذہبی انتہاء پسندانہ سوچ اور نظریے کے ساتھ وابستہ ہوکر بلوچوں نے اپنے نفرت اور مخالفت کا اظہار اور عملی طور پر شدت پسند تنظیموں سے جڑ کر شروع کیا، تو وقتی ہی صحیح دشمن پر کاری ضرب، سراج جیسے غداروں کے ہلاکت کی صورت میں سامنے آئے گی لیکن مستقل میں دورس نتائج کیا ہونگے؟ لازماً منفی ہونگے۔
پھر میرے خیال میں، سیکولر آزاد بلوچستان کا خواب ادھورا ہوگا، بلوچ شہیدوں کے ارمان صرف ارمان ہی رہ جائینگے اور بلوچوں کی تاریخی تحریک مزاحمت اور قربانیاں اور طویل قوم پرستی کی تاریخ مذہبی انتہاء پسندی کے آڑ میں ہمیشہ کیلئے دھندلا جائیں گے۔ بلکل دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اور دشمن کا دوست دشمن ہوتا، دوست کا دوست، دوست ہوتا ہے۔ لیکن کس حد تک یہ خیال سائینسی اور علمی ہے؟
خیر اگر یہ خیال اور سوچ صحیح اور قابل عمل بھی ہے، آج پاکستان کے دشمن بلوچوں کے دوست ہیں، پاکستان کو جتنا بھی نقصان جس کی طرف سےبھی ہو، وہ فائدہ مند ہے اور سراج جیسے غدار کی ہلاکت بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کیلئے انتہائی فائدہ مند ہے اور بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری ہو، الیکشن ہو، سی پیک ہو، جن کو نقصان پہنچانا سبوتاژ کرنا پورے بلوچستان میں پاکستان کے رٹ کو چیلنج کرنا، ہر طرف امن وامان کی صورتحال کا تہس و نہس ہونا اور خوف و دہشت کا سماء بلکل بلوچوں کے جہد کے حق میں ہے اور پاکستان کیلئے انتہائی نقصان دہ اعمال اور افعال ہیں۔
لیکن جب تک بلوچستان کی سنگین و مخدوش صورتحال اور تشدد کی لہروں کو بلوچ تحریک آزادی کے حق میں اور بلوچ نیشنلزم کے سانچے میں ڈھالا نہیں جاتا اور اس کا رخ اور فائدہ اپنے حق میں تبدیل نہیں کیا جاتا، تب تک بلوچ قوم اور بلوچ تحریک کو اس کے فائدے کم اور نقصان مستقبل میں بہت زیادہ ہونگے۔
جذبات، خوشی، فخر، فائدہ، دشمن کو نقصان وغیرہ وغیرہ سب اپنی جگہ لیکن مستقبل کی تصویر اور تصویر کے ہر ایک پہلو کو ہروقت ذہن میں رکھ کر ہر آزادی پسند، قیادت سے لیکر ہر جہدکار کو بلوچستان میں رونما ہونے والے ہر واقعے اور حالات کا انتہائی سنجیدگی اور باریک بینی سے تجزیہ کرنا، اور اس پر غور کرنا، سوچنا اس وقت بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ آزادی کی قومی جنگ ہے۔ قوم کے مسقبل کی جنگ ہے، یہ بلوچوں کے سروں و قربانیوں اور لہو کے بہنے کی جنگ ہے، یہ جنگ تاریخ ہے، تاریخ کا حصہ بن رہا ہے، معمولی سا معمولی خطاء، نادانی اور غیر ذمہ داری پورے تاریخ کو ملایامیٹ کرسکتا ہے پھر تمام تر ذمہ داری سے بلوچ قیادت اور ہر جہدکار بری الزمہ نہیں ہوگا۔
بلوچ قیادت اور جہدکاروں کو اپنے ضد و انا اور سطحی جذباتی، طفلانہ تجزیات، تصورات اور خیالات سے اب باہر نکل کر کم سے کم ان حقائق پر سرجوڑ کر مل بیٹھ کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اور پالیسی مرتب کرنا ہوگا، جن سے بلوچ قومی تحریک بلوچ قوم اور بلوچستان کا تشخص اور بقاء بندھا ہوا ہے۔