جائز و ناجائز – عابد بلوچ

325

جائز و ناجائز

تحریر۔ عابد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی الیکشن اپنی 2013 والی تاریخ کو دہرا رہی ہے۔ پچھلے الیکشن میں ریاستی کاسہ لیسوں کو ووٹ نہ پڑنے پر بھی وزیر کا درجہ دے دیا گیا۔ وجہ کیا تھی؟ یہ تو پوری دنیا جانتی ہےکہ ریاست اپنا قبضہ گیر مکروہ چہرہ چھپانے کیلئے یہ کام کررہا ہے۔ ایک ناکام طریقے سے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ بلوچستان کے عوام پنجاب پر مشتمل ریاست کو قبول کرکے بھر پور الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کے نمائندے اسمبلیوں اور پارلیمینٹ میں بیٹھے ہیں۔ کیا ان کا کردار واقعی بلوچ عوام کے نمائندوں جیسے تھے؟ یہ تو ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کہ میرا خیر خواہ کون اور بد خواہ کون۔ آج با شعور ہوں یا بے شعور پوری بلوچ عوام کہہ رہی ہے کہ پچھلی حکومت کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے منتخب کیا تھا۔

اس مرتبہ پھر ریاست ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ الیکشن ہوجائے اور بلوچستان پر اپنے قبضے کو دوام بخشا جائے۔ ان الیکشن میں حصہ لینے والے ریاستی کاسہ لیسوں کے درمیان خوب گالم گلوچ والا تماشہ جاری ہے۔ اس تماشے کو اسلام آباد سے دوربین کے ذریعے دیکھا جارہا ہے۔ ان کو ننگا کرنے والا خوب انجوائے کررہا ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ ان کو کون ننگا کررہا ہے۔

گذشتہ دن ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر نظروں سے گذرا۔ جس میں ریاستی مہرہ سراج خان رئیسانی اپنے تقریر میں خود کو باپ پارٹی کا ثابت کرکے کہہ رہا تھا کہ جس کو باپ نہیں ہم اسے حرامی کہتے ہیں۔ واقعی سراج خان آپ نے کمال کا دلیل پیش کیا ہے۔ آج تو پوری بلوچستان کو معلوم ہوا کہ پیدائش سے لیکر 2018 تک سراج خان ایک حرامی تھا جوکہ اب باپ پارٹی کے بننے کے بعد حلالی بن گیا۔ یہ بھی ایک نعمت ہے،ریاست نے ایک ناجائز باپ کو تشکیل دیکر ان کو حرامی کے لقب سے بچا لیا۔ پتہ نہیں واقعی بچ گئے کہ نہیں۔ بہرحال ان اجتماعی اولادوں کو ایک انفرادی باپ مل گیا۔ کیا خوب ریاست نے ان کی تذلیل کی۔ پہلے بغیر باپ کے ان کو ننگا کیا پھر جب عوام نے ان کو ننگا دیکھا پھر ان سب کیلئے ایک باپ بنایا۔ اب ان ننگے لیڈروں کو حرامی اور حلالی کہنے کا موقع ملا۔

سراج رئیسانی بلوچ قوم کا صادق اور جعفر ہے، جس نے کئی نوجوانوں کو اغواء کرکے اپنے ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز اذیت دیکر شہید کردیا۔ بلوچ سرمچاروں نے ان پر ایک حملہ کیا، جس میں اس کا ایک بیٹا حقمل رئیسانی ہلاک ہوگیا۔ اس حملے سے پہلے سرمچاروں کی طرف سے انہیں کئی مرتبہ تنبیہہ کی گئی تھی لیکن ریاست کے ناجائز اولاد ہونے کو ظاہر کرنے کیلئے بلوچ سپاہیوں کے دھمکیوں کو پد پشت ڈالا۔ جس سے ان پر حملہ کیا گیا۔ یہ وہی ریاستی مہرے ہیں، جو ریاستی اقدامات پر اترا کر نہتے بلوچ نوجوانوں کی اغواء میں ملوث ہیں۔ سرمچاروں کے ہاتھوں شکست کھا کر اس کا بدلہ بلوچ عوام سے لینا شروع کیا۔ بلکل اسی طرح، جیسے ریاست پاکستان کرتا ہے۔ ریاست بھی مسلح بلوچ جانثاروں کے ہاتھوں شکست کھاکر نہتے عوام سے اس کا بدلہ لیتا ہے۔

دنیا کے تمام مقبوضہ ممالک میں محکوم عوام، شروع دن سے حاکم اور اس کی تمام ریاستی اقدامات کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ تب جاکے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ بلوچستان کے ہر گھر میں ایک شہید نے اپنے مقدس خون سے دیئے جلائے ہیں۔ اس روشنی میں بھلا کون غداری کی تاریک راہ کو منتخب کرےگا۔ اگر جو یہ کرے گا، تو دھرتی کی تاریخ کبھی اسے معاف نہیں کرے گی۔

آج اگر کچھ تاریخ کے سیاہ باب کے حصے میں نام کما رہے ہیں، تو وہ یہی لوگ ہیں جو اپنے مقصد اور ضمیر کا سودا کرکے دو دن کے عیش عشرت کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔

تاریخ عالم کے صفحات پر میر صادق اور جعفر کے سیاہ کرتوت اور ان کا کردار ہمیشہ سے سیاہ الفاظ میں کندہ ہے، ان کے بچے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ دنیا کے باشعور انسانوں کیلئے ایک سبق ہے۔ اس کردار کے انسانوں پر تاحیات دنیا لعنت بھیجتی رہے گی۔ اور آنے والے نسل بھی آپ پر لعنت بیھجیں گے، آج اگر کوئی دشمن کا ساتھ دیکر اپنے بھائیوں کا خون چوسے بھلا وہ کیسے اس مٹی کا جائز اولاد ہوسکتا ہے۔