تعلیم اور بلوچستان
تحریر: ساچان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی اور کامیابی کا سب سے اہم جز ہے، تعلیم ہی وہ اکلوتا اوزار ہے جو کہ لوگوں کو اپنے اردگرد اپنی تاریخ اورزندگی کے تمام پہلو کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے۔ ارشد محمود اپنے کتاب تعلیم اور ہماری قومی الجھنیں میں لکھتا ہے کہ تعلیم کا مقصد طالبعلم کو آرٹ تاریخ سائنس اور اخلاقیات کے بارے میں معاملہ فہم سرگرم اور آزادانہ طور پر سوچ بچار کے قابل بنانا ہے تعلیم کے بغیر عوام کی سیاسی حقوق ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔
مگریہ ایک حقیقت ہے کہ سامراج کوئی بھی ہو، اس کا بنیادی مقصد اپنے دائرہ اقتدار کو بڑھانا، دوسری قوم کے افرادی اور مادی وسائل کو اپنے زیر استمعال لانا اور ان پر اپنے دائرہ اقتدار کو کھڑے کرنا ہے اور وہ اس کی حصول کے لیئے ہر حربہ آزمانے پر تلے رہتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں سامراجیوں نے تعلیم کو بھی بطور ہتھیار آزمایا ہے، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نوآبادیاتی نظام قوموں کو ذہنی اور شعوری طور پر بانجھ بنانے کے لیئے تشکیل دی جاتی ہے، جو کہ صرف مقبوضہ اقوام کے لیئے مختص ہے، تاکہ ان اداروں سے باشعور سیاسی سماجی ورکر دانشور اور فلاسفر نکلنے کے بجائے نوکری پیشہ ذہنیت کے چلتے پھرتے کل پرزے نکلیں جو نوآبادیاتی مشین میں جڑ کر اپنی ہی قوم و سماج کے استحصال میں معاون کار اور مددگار ثابت ہو۔
قومیں اور سماجی غلام کے نظام کے رکھپال ایسا کبھی نہیں چاہتے کہ تعلیمی نظام سے ایسے ماہر اور آگہی رکھنے والے لوگ پیدا ہوں، جو ان کے کرتوتوں کے بابت علم رکھتے ہیں۔
قومیں اور طبقاتی نظام کے سماجی شعور کی تعلیم بنے بنائے اور طے شدہ فارمولے کے تحت دی جاتی ہے اور ایسے تعلیم انسان سے ان کی سوچ اور سمجھ کو دوسرے کے ذہن کا تابع بنا دیتی ہے، بلکل اسی طرح ریاست پاکستان نے مقبوضہ بلوچستان کے نوجوان نسل کو تعلیم سے دور رکھا ہے، تعلیم سے دوری کی وجہ سے آج بلوچ قوم حقیقت کے علم سے ناواقف ہے اور علم سے دوری تو غلامی کی مہر ثبت کردیتی ہے، بلوچ نوجوانوں کو تعلیم اور سیاسی تربیت سے روکنے کے لئے ریاست روز اول سے مختلف پروپگنڈے کا سہارہ لے رہا ہے، تاکہ بلوچ نوجوانوں میں سیاسی شعور کو پروان چھڑھانے سے روکا جاسکے۔
قابض ریاست بھی اسی پالیسی کے تحت نوجوانوں کی اجتماعی سوچ کو ختم کرنے کے لیئے ایک منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں میں فوجی تعینات کررہی ہے، بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے مکمل فوجی نگرانی میں ہے، خوف و دہشت کے ماحول میں نوجوانوں کو رٹائی جانے والی تعلیم دے کر ان میں تنقید کی صلاحیتوں کو ختم کیا جارہا ہے۔
بلوچستان میں تعلیم سے دوری کی وجہ کی ایک واضح مثال ایک تازہ ترین رپورٹ ہے، جس میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں 70 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جو بچے اسکولوں سے باہر ہیں، وہ بھی زیادہ تر منشیات کے عادی ہیں، آج ریاست پاکستان نے بلوچستان پر جس طرح کا تعلیمی حوالے سے نوآبادیاتی نظام قائم کیا کہ پاکستان اول تو بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے.
ریاست پاکستان اپنی دہشتگردی اور غنڈہ گردی کے ذریعے جب بلوچ قوم کو تعلیم سے دور رکھنے میں ناکام رہی، تو بلوچوں کو تعلیم سے دور رکھنے اور علم کے دروازے بند کرنے کی پالیسی کو بلوچستان سے باہر دیار غیر میں پڑھنے والے بلوچ طالب علموں پر بھی نافذ العمل کردیا اور ان بلوچ طالب علموں کو بھی ریاستی انتہا پسندی کا نشانہ بنایا تاکہ بلوچ علم کی روشنی سے محروم ہوکر اپنی تحریک سے دستبردار ہو. ان تعلیمی اداروں کے اصول و ضوابط سے پتہ چلتا ہے کہ جامعات طلبہ کے لیئے سیکھنے کی جگہ نہیں بلکہ طلبہ کو سزا دینے کی جگہ ہے۔
2013 میں پاکستان نے بی ایس او آذاد پر پابندی لگا دی، صرف کتاب پڑھنے کی جرم میں بلوچ نوجوانوں پر سیاسی تعلیم پر پابندی لگادی، بی ایس او آزاد ایک جمہوری اور پرامن تنظیم ہے، جو آزاد بلوچستان کے لیئے جدوجہد کررہے ہیں، بلوچ طلباء کو شعور سے آراستہ کرکے پرامن جدوجہد کی جانب گامزن کررہا ہے، ان نوجوان کا اغواء ہونا بلوچ قوم کےلئے ایک المیہ سے کم نہیں ہے، کیونکہ یہ وہ لیڈران ہیں، جنہوں نے اپنے قوم کو تخلیقی ذہن فراہم کرکے انہیں اپنے قومی آجوئی کے لیئے جدوجہد پر آمادہ کیا ہے، اس دوران بلوچ استادوں کو بھی علم کی روشنی پہنچانے سے محروم کیا گیا۔ زاہد آسکانی، صباء دشتیادی، رسول جان جیسے ہزاروں استادوں کو شہید کیا گیا ہے۔
اس ماحول میں سیاسی کارکن کی تعلیم و تربیت ضروری ہے کیونکہ کارکنان کسی تنظیم و پارٹی میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتی ہے، کارکن کسی تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرتی ہے، انقلابی تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی اپنے تحریکوں کو کامیابی کے جانب گامزن کیا جاسکتا ہے، اس بات کا ادراک ہر سیاسی کارکن کو ہے، محکوم و مظلوم اقوام میں قومی درد اور احساس اسکول، مدرسہ اور کالج کی تعلیم و تربیت سے نہیں بلکہ سیاسی اور نظریاتی تعلیم و تربیت سے پیدا ہوتی ہے، خاکی جویو اپنی کتاب تنظیم کاری کے اصول میں کہتے ہیں کہ اس لیئے تنظیموں پر انحصار ہوتی ہے کہ وہ کارکنوں کی تربیت اور مثبت سوچ کی حوصلہ افزائی کرکے کارکنوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتاہے، کسی بھی سیاسی کارکن کو تنقید سے نہیں گھبرانا چاہیئے، کیونکہ وہ انقلاب سے گذررہا ہے، تنقید ہی وہ عمل ہے جس سے ہم اپنے تنظیمی خامیوں اور کوتاہیوں سے نبروآزما ہوتے ہے۔
اپنے کام کو مسلسل جانچنا, جمہوری عمل کو بڑھاتے رہنا, تنقید سے نہ گھبرانا, خود سیکھا ہو، پھر دوسرے کو سکھانا یہی وہ خاصیت ہے، جو ہر سیاسی کارکن میں ہونا چاہیئے، قومی انقلابی مقصد کے حصول کے حقیقی پیروکار، عوامی جدوجہد سے جنم لیتی ہے، عوامی جدوجہد کے طویل عرصے میں کارکنوں کی آزمائش ہوتی ہے، اس دوران کارکنوں کی تربیت کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تنظیموں کو پھیلانے اور مقاصد کی حصول کے لیئے ہزاروں کارکنوں اور سیکڑوں رہنماؤں کی تربیت ضروری ہوتا ہے، کارکن اور سیاسی رہنماؤں پر مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ قومی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیئے سوچ سمجھ کر آگے بڑھائے۔
تعلیم سے منسلک تمام دشواریوں کا پوری بہادری اور حوصلے سے سامنا کریں اور اپنے دشمن کے اس منصوبے کو ناکام بنا کر, تعلیم کواپنا ہتھیار بنا کر غلامی کے ان زنجیروں کو ہمیشہ کے لیئے توڑ دیں۔