بلوچستان میں ستر فیصد سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، وفاق کا اعتراف

386

وفاقی حکومت پاکستان کی جانب سےجاری رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں ستر فیصد سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے ۔ مادنی وسائل سے مالا مال بلوچستان جہاں سے پاکستان کے توانائی کی بیشترضروریات کو پورا کیا جاتا ہے، در حقیقت بچوں کی تعلیم کے حوالے سے فاٹا سے بھی کافی پیچھے ہے جہاں 58 فیصد بچے اسکول جانے سے مرحوم ہیں۔

جمعرات کے روز تعلیم کے حوالے سے ان عداد و شمار کا خلاصہ پاکستان ایجوکیشن سٹاٹیسٹک 2017-18  کی رپورٹ میں وفاقی وزارتِ تعلیم و تر بیت کے ماہ تحت کام کرنے والی نیشنل ایجوکیشن منیجمنٹ انفورمیشن سسٹم نامی ادارے کی جانب سے نشر کیا گیا ۔

اس با ت کی بھی تصدیق کی گئی ہے کے بلوچستان میں قائم زیادہ تر اسکولوں میں صرف ایک استاد تعنیات ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 5 سے 16 برس کی بچوں کی کل تعداد ساڑے پانچ کروڑ ہے جن میں صرف دو کروڑ اسی لاکھ بچے ہی اسکول جاتے ہیں ، جو مجموعی طور پر صرف چاوالیس فصید ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسکول نہ جانے والوں میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس عمر کے اُنچاس فیصد لڑکیاں جبکے چالیس فیصد لڑکے اسکول نہیں جا پاتے۔

اعداد ہ شمار کے اعتبار سے بلوچستان کے ستر فیصد بچے اسکول نہیں جاتےہیں ، جبکے  58فیصد فاٹا ، 52فیصد سندھ، 47فیصد گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر ، 40فیصد پنجاب ، 34فیصد خیبر پختون خواہ جبکے آسلام آباد سےصرف 12 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔

یو این ڈی پی کی جانب سے بلوچستان کو سماجی اور معاشی طور پر خطے کا بد ترین علاقہ کرار دیا گیا تھا ، جس کے مطابق بلوچستان کی 56 فیصدکوکثیر الجہتی طور پر غربت کی کٹیگری میں شمار کیا گیاتھا۔ یو این ڈی پی کے مطابق دس سال سے زائد عمر کے لڑکیوں کی شرح ناخواندگی 72.94فیصد کے خطر ناک حد تک پہنچ چکی ہے ، جبکہ اسی عمر کے لڑکوں میں ناخواندگی کی شرح 48 فیصد ہے۔

بلوچستان میں 5 سے 10 سال کے بچے اور بچیوں میں سے 59.32 فیصد بچیاں جبکے 52.72 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے اور ہر 1000 بچوں میں سے اوسطََ 89 بچے پانچ بر س کےعمر پہنچنے سے پہلے انتقال کر جاتے ہے اور ہر ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 785 دوران ِحمل انتقال کر جاتی ہیں۔