بلوچستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں نے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سخت اعتراضات اٹھاتے ہوئے دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔
بلوچستان کی سابق اتحادی حکومت میں شامل جماعت اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ بلوچستان میں الیکشن نہیں بلکہ دھاندلی ہوئی ہے۔
حاصل بزنجو نے دعویٰ کیا کہ انتخابات میں آٹھ نشستوں پر کامیاب ہونے والے ان کی جماعت کے اُمیدواروں کو نتائج نہیں دیے جا رہے۔
میر حاصل بزنجو نے الزام لگایا کہ نیشنل پارٹی کے نمائندے اب بھی ریٹرننگ اور ڈپٹی ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں بیٹھے ہیں لیکن ان کے بقول ریٹرننگ افسران ایف سی (فرنٹیر کانسٹیبلری) کے کیمپوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ایف سی کیمپوں میں نتائج تیار ہو رہے ہیں اور ابھی تک اُمیدواروں کو نتائج نہیں دیے گئے لیکن اعلان ہورہا ہے کہ فلاں، فلاں جیت گیا ہے۔
میر حاصل بزنجو نے دعویٰ کیا کہ سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال انتخابات ہار چکی ہیں مگر اس نشست کا نتیجہ روک لیا گیا ہے اور ان کے امیدوار کو نتیجہ نہیں دیا جارہا لیکن اعلان کیا جارہا ہے کہ زبیدہ جلال جیت گئی ہیں۔
میر حاصل بزنجو نے کہا کہ حالیہ انتخابات سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والے انتخابات سے زیادہ دھاندلی زدہ ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا نیشنل پارٹی نئی حکومت کے خلاف بننے والے اتحاد کا حصہ بنے گی؟ میر حاصل بزنجو نے کہا کہ ابھی کچھ دیر پہلے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اُن کو فون کر کے جمعے کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے اور وہ اسلام اباد روانہ ہو رہے ہیں۔
حاصل بزنجو نے کہا کہ اجلاس میں الیکشن کے بعد کی صورتِ حال پر غور کیا جائے گا اور اس کے بعد مشترکہ حکمتِ عملی بنا کر آگے بڑھیں گے۔
یہ الیکشن نہیں بلکہ پاکستان کی فوج کی جانب سے سلیکشن تھا۔
بلوچستان کی سابق اتحادی حکومت میں شامل ایک اور جماعت نے بھی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی’ (پی کے میپ) نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ یہ الیکشن نہیں بلکہ پاکستان کی فوج کی جانب سے سلیکشن تھا۔
‘پی کے میپ’ کے صوبائی صدر اور سینیٹر محمد عثمان کاکڑ نے الزام عائد کیا کہ فوج کے میجر، کرنل اور دیگر افسران ضلعی سطح پر اپنے پسندیدہ لوگوں کے لیے کھلم کھلا سرگرم تھے۔
عثمان کاکڑ نے الزام لگایا کہ ملکی سطح پر اسٹیبلشمنٹ نے تحریکِ انصاف کے لیے بہترین مہم چلائی۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر فوج کے کنٹرول میں تھا اور میڈیا پر سینسر شپ عائد تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کو انتخابات سے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ وہ آئندہ انتخابات میں ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکیں گے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ان کے کارکنوں نے بدھ کی صبح دس بجے پارٹی کے چئیرمین محمود خان اچکزئی کے حلقے میں ایک پولنگ اسٹیشن پر چھاپہ مارا تو وہاں ایک اُمیدوار کے لیے بوگس ووٹنگ کی جارہی تھی جس کی شکایت الیکشن کمیشن سے کی لیکن اس پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
عثمان کاکڑ نے دعویٰ کیا کہ توبہ اچکزئی کے ایک پولنگ اسٹیشن پر کھڑے فوج کے ایک میجر نے ہماری خواتین ووٹرز کو پولنگ اسٹشن جانے کی اجازت نہیں دی اور ہمارے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا۔
ان کے بقول قلعہ عبداللہ میں بھی ایسی ہی صورتِ حال تھی جب کہ چمن میں ان کے لگ بھگ 1200 ووٹ مسترد کیے گئے۔
عثمان کاکڑ نے کہا کہ ان ساری کارروائیوں کے خلاف ان کی جماعت احتجاج کر ے گی اور نئی حکومت کے خلاف سیاسی جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش کرے گی۔
واضح رہے کہ ‘پی کے میپ’ اور ‘نیشنل پارٹی’ دونوں مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ وفاقی حکومت کے اہم اتحادی تھے۔
انتخابی نتائج پر بی این پی (مینگل) بھی معترض
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعلیٰ سردار اختر مینگل نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بلوچستان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے نتائج فوراً جاری کرے۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے بلوچستان کے اکثر حلقوں کے نتائج روک لیے ہیں اور یہ عمل انتخابات کے سارے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابقہ ادوار میں جب کمیونیکشن کے نظام نے اتنی تر قی نہیں کی تھی، پھر بھی رات 11 بجے تک نتائج جاری کردیے جاتے تھے لیکن اب جدید ٹیکنالوجی کے باوجود الیکشن کمیشن نے نتائج روکے ہوئے ہیں۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی مرتب کردہ ووٹر کی فہرستیں دُرست نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ووٹ تلاش اور کاسٹ کرنے میں کافی وقت صرف ہوا، پولنگ مراکز کے سامنے لوگوں کی طویل قطاریں تھیں اور وقت ختم ہونے پر لوگوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ مکران، تربت اور بعض دیگر علاقوں میں بی این پی کے مخالفین سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں باکسز اُٹھا کر لے گئے جب کہ کوئٹہ، لسبیلہ، قلات، مکران اور بعض دیگر علاقوں میں ابھی تک حتمی نتائج اُ میدواروں کو نہیں دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج روکنے سے یہ واضح ہورہا ہے کہ الیکشن صحیح طریقے سے نہیں ہوئے اور نہ الیکشن کمیشن کا طریقۂ کار دُرست تھا۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ وہ جلد کوئٹہ جائیں گے اور پارٹی کی مرکزی رہنماﺅں اور نومنتخب ارکان کا اجلاس طلب کر کے سارے انتخابی عمل کا جائزہ لیں گے اور اس کے بعد فیصلہ کریں گے کہ ان کی جماعت ‘بی این پی’ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے گی یا حکومت کا حصہ بنے گی۔
سردار مینگل نے کہا کہ پارٹی کے ارکان کی کامیابی پر اُن کو زیادہ خوشی اس لیے نہیں ہے کہ رواں ماہ بلوچستان میں ہونے والے دو خودکش حملوں نے ان کی پارٹی کے کارکنوں کی تمام خوشیاں چھین لی ہیں۔