فٹ بال ورلڈ کپ 2018 کو اگر اپ سیٹ کا ورلڈکپ کہاجائےتوغلط نہ ہوگا تاہم اس کا آغاز ایونٹ سے قبل ہی ہوگیا تھاجب عالمی کپ کیلئے طاقت ور سمجھی جانے والی اطالوی ٹیم میگا ایونٹ تک رسائی حاصل نہ کرسکی ۔ یہ سال 1958 کےبعدپہلاموقع تھاکہ اٹلی کی ٹیم ورلڈکپ سےباہر رہی۔ 60 برس میں پہلی بار اس مایوسی کیلئے اگر ٹیم کے کوچ اور کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کے ساتھ کے تنازعوں کو وجہ قرار دی جائے تو غلط نہ ہوگا، تاہم آپس کے اختلافات ٹیم کی پرفارمنس کو لے ڈوبے۔خود کھلاڑیوں اور دنیا بھر میں موجود اٹلی ٹیم کے فینز کیلئے یہ خبر کسی طور قابل قبول نہ تھی، تاہم یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑا۔ یہ ہی نہیں میلان میں کھیلے جانے والے پلے آف میچ میں اٹلی اور سویڈن کا مقابلہ ایک ایک سے برابر ہونے کے بعد جب رسائی ممکن نہ رہی تو عالمی شہرت یافتہ گول کیپر جین لوئجی بوفون نے اپنے بین الاقوامی کریئر کے خاتمے کا اعلان بھی کردیا۔ فٹ بال کے مداح اب جین کو عالمی مقابلوں میں نہ دیکھ سکیں گے۔ان کے ساتھ جووینٹس کے ساتھی کھلاڑی آندرے برزاگلی اور روما کے مڈ فیلڈر ڈینیئل دا روسی نے اٹلی کے ساتھ اپنے کریئر کے خاتمے کا اعلان کردیا جبکہ جارجیو چیلینی کے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چاروں نے مل کر 461 میچ میں شرکت کی ہے۔ گول کیپر بوفون نے اپنے 20 سالہ کریئر میں ملک کے لیے 175 میـچز میں شرکت کی ہے اور وہ سنہ 2006 میں ورلڈ کپ جیتنے والی اطالوی ٹیم کا حصہ بھی رہے ہیں۔ یوں اپ سیٹ کا یہ سلسلہ اس کے ساتھ ہی طول پکڑتا چلا گیا اور بڑے بڑے سورما اور ہیوی ویٹ ٹیمیں واپسی کا ٹکٹ کٹواتی چلے گئے۔
میگا ایونٹ کے پہلے میچ میں میزبان روس کے ہاتھوں سعودی عرب کی 5-0 سے شکست نے سعودی ٹیم کو نہ صرف مداحوں بلکہ حکام کے ہاتھوں بھی رسوا کیا۔ فٹ بال پنڈتوں کی میسی اور رونالڈو کے خلاف تمام تر پیش گوئیاں ہوا ہوگئیں، تاہم ان کے مقابلے میں سورس اور کیوانی جیسے کھلاڑی میدانوں میں چھائے رہے۔ برازیل کے نیمار نے بھی مداحوں کو مایوس نہ کیا۔ جرمنی کے ملر، اوزل اور کروس جیسے ہیوی ویٹ کھلاڑی بھی اپنی ٹیم کو شکست سے نہ بچا سکے۔ سوئیڈن کودیئےجانے والا جرمن فٹ بال کوچ کا طعنہ اگلےہی میچ میں ان کومنہ چڑھا گیا اور دوسروں کابوریا بستر گول کرنے والے خود جرمن کوچ کا ایونٹ سے بوریا بستر گول ہوگیا۔
یہ ورلڈ کپ اس لحاظ سے بھی اہم ہےکہ شاید اگلے کپ میں آپ کو بہت سے پسندیدہ کھلاڑی ایکشن میں نظر نہ آسکےجس میں سب سےبڑے نام رونالڈو اور میسی کے ہیں۔ لیگ میچز میں 30سالہ میسی کی پرفارمنس کو داد دیے بغیر کوئی رہ ہی نہیں سکتا۔ان کی شاندار پرفارمنس کی وجہ سے ہی ان کا موازنہ پرتگالی فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو سے کیا جاتا ہے۔ رونالڈو میگا ایونٹ میں اسپین کے خلاف میچ میں ہیٹ ٹرک اور مراکش کے خلاف مجموعی طور پر 4 گول کرچکے ہیں، لیکن اگر ہم ماضی کی طرف جھانکیں تو 2014 ءورلڈ کپ میں پرتگالی ٹیم کی پوزیشن ارجنٹائن کی طرح تھی۔ رونالڈو کی ٹیم کا سفر گروپ اسٹیج پر ہی ختم ہوگیا تھا۔ پرتگال نے صرف گھانا کے خلاف ایک کامیابی حاصل کی تھی اور رونالڈو ایونٹ میں صرف ایک گول کرسکے۔
ارجنٹائن کی ٹیم میں میسی کی وہ ہی اہمیت ہےجیسے بارسلونا کلب کی فتوحات میں میسی، نیماراور لوئس سوریز”ٹرائیکا“کاکردار میں بہت اہم ہے۔ میسی ہسپانوی کلب بارسلونا کو 8بار اسپینش لالیگا چیمپئن شپ، 5بارکوپاڈی ریل، 4بار یوئیفا چیمپئنز لیگ ،3 بار یوئیفا سپر کپ اور3 بار فیفا کلب ورلڈ کپ جتواچکے ہیں، لیکن قومی ٹیم کو ابھی تک عالمی اعزاز دلانے میں ناکام ہیں۔ ارجنٹائن 2 بار 1978 ءاور 1986ءورلڈ کپ چیمپئن بن چکا ہے اور دونوں بار ٹیم کو عالمی چیمپئن بنوانے والے ڈیاگو میراڈونا کا کردار بہت اہم تھا۔ لائنل میسی اور میراڈونا کے درمیان یکساں کھیل کے اسٹائل کی وجہ سے میسی کو” نیومیراڈونا“کا خطاب دیا گیا۔ میسی کی قومی ٹیم میں شمولیت کے بعد ارجنٹائن کے شائقین نے ان سے توقعات وابستہ کرلی ہیں۔2018ءورلڈ کپ 31سالہ لائنل میسی کیلئے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا یہ ورلڈ کپ ان کے کیرئیر کا آخری ورلڈ کپ تھا۔ میسی کی تمام ناقص کارکردگی اپنی جگہ تاہم کچھ نہ کرتے ہوئے بھی میسی ورلڈ کپ کی 88سالہ تاریخ میں انڈر20اور انڈر30میں گول کرنیوالے پہلے کھلاڑی بننے کا اعزاز اپنے نام کرچکے ہیں۔ انہوں نے 2006ءکے ورلڈ کپ میں 18 سال کی عمر میں ورلڈ کپ کا پہلا گول کیا، جب کہ نائیجیریا کیخلاف 31سال کی عمر میں گول کیا۔ یاد رہے کہ 2018 ءورلڈ کپ کے ابتدائی دو میچز میں میسی اور ان کی ٹیم حریف ٹیموں کے سامنے بے بس نظر آئی۔ پہلے میچ میں آئس لینڈ کے خلاف ٹیم کی باڈی لینگویج تبدیل ہونے اور لائنل میسی کی پینلٹی مس کرنے کی وجہ مقابلہ 1-1سے ڈرا پر ہوا۔ میسی کی ٹیم کو دوسرے میچ میں کروشیا کے خلاف0-3 سے اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تیسرے میچ میں نائیجیریا کو دو کے مقابلے میں ایک گول سے ہرا کر میسی کی ارجنٹینا اگلے راﺅنڈ میں جانے میں کامیاب رہی۔ سپر اسٹار لائنل میسی تیسری بار میگا ایونٹ میں ارجنٹائن کی کپتانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں تاہم ان کی ہمیشہ سے یہ بدقسمتی رہی کہ وہ ملکی سطح پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ میسی کا ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ بہتر کومبنیشن نہ بننا ہے۔ میسی اس وقت سخت ذہنی دباﺅکا شکار ہیں اور ان پر تنقید کے نشتر برسائے جارہے ہیں لیکن کسی بھی ٹیم کی ناکامی کاذمہ دار فرد واحد کو ٹہرایا نہیں جاسکتا۔
ورلڈکپ کا ایک اور سب سے بڑا اپ سیٹ اس وقت دیکھنے میں آیا، جب روس اور اسپین کے درمیان کھیلے جانے والا میچ پہلے برابری کے گول پر مقررہ اوقات میں ختم ہوا، جس کے بعد میچ کو فیصلہ کن بنانے کیلئے اضافی وقت دیا، تاہم اس میں بھی ٹیموں کی قسمت کا فیصلہ نہ ہوسکا اور مرحلہ پینلٹی شوٹس پر گیا، جہاں میزبان روس نے ہسپانوی مضوط ٹیم کو اکھاڑ پیھنکا۔ جرمنی ورلڈ کپ کے گزشتہ تین ٹورنامنٹس میں سب سے زیادہ گول کرنے والی ٹیم رہی ہے۔ جرمن فٹ بال ٹیم 2014ء میں اٹھارہ، 2010ء میں سولہ اور 2006ء میں چودہ گولز کے ساتھ سرفہرست رہی۔ جرمنی نے 2014ء میں برازیل میں کھیلے جانے والے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کے فائنل میں ارجنٹائن کو صفر کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دی تھی۔ اس طرح جرمنی چوتھی بار فٹبال کے عالمی کپ کا فاتح قرار پایا تھا۔جرمنی اور جنوبی کوریا کا میچ آخری منٹوں تک برابر رہا تاہم جنوبی کوریا کے کھلاڑی کِم یَنگ گون نے ایک شاندار گول کر کے اپنی ٹیم کو برتری دلا دی۔ دفاعی چیمپیئن جرمنی کی مایوس کن شکست جنوبی کوریا کا پہلا گول تھا، جب لائن ریفری کی طرف سے کِم یَنگ گون کو ابتداء میں آف سائیڈ قرار دے دیا گیا تھا تاہم ویڈیو ریوو کے بعد ریفری نے جنوبی کوریا کے حق میں فیصلہ دے دیا اور یوں جنوبی کوریا نے ایک صفر کی برتری حاصل کر لی۔ جرمن گول کیپر بھی ٹیم کے دفاع کی دھن میں ایسے گم ہوئے کہ دیکھنے والے آنکھیں پھاڑے دیکھتے ہی رہ گئے۔ دوسرا گول جرمن ٹیم اور جرمن فٹبال شائقین کے لیے بھی انتہائی مایوس کُن ثابت ہوا جب جرمنی کے گول کیپر مانویل نوئر اپنی ٹیم کی مدد کے لیے جنوبی کوریا کی ڈی میں ہی پہنچ گئے تھے۔
جنوبی کوریا کے فارورڈ سَن ہونگ مِن نے انتہائی آسانی کے ساتھ جرمنی کے خلاف دوسرا گول کر کے اپنی ٹیم کی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔جرمن ٹیم نے اس ورلڈ کپ میں اپنے تین میچوں سمیت ان مقابلوں سے پہلے بھی مجموعی طور پر گزشتہ سات ماہ میں جتنے بھی میچ کھیلے، ان سب میں یہ ٹیم کسی بھی طرح کی متاثر کن کارکردگی دکھانے اور کھیل میں جدت اور انتھک جذبے سے محروم ہی نظر آئی۔جرمنی نے اس ورلڈ کپ کے لیے جس گروپ سے کوالیفائی کیا تھا، اس میں اس کا درحقیقت کوئی بڑا حریف موجود ہی نہیں تھا، تاہم اس کے باوجود ہویی ویٹ ٹیم مایوس کن کارکرگی سے مایوس کرتی رہی۔ دیکھا جائے تو گزشتہ سال نومبر 2017ء سے اس ٹیم نے جو میچ کھیلے، ان میں سے تین ڈرا ہوئے، دو میں اسے ناکامی ہوئی اور صرف ایک میچ ہی جیتا جا سکا، وہ بھی خوش قسمتی سے۔ لیکن کس کے خلاف؟ سعودی عرب کے خلاف، جو فٹبال کی عالمی درجہ بندی میں دنیا کی 67 ویں نمبر کی ٹیم ہے۔جرمنی نے فیفا ورلڈ کپ میں جو تین میچ کھیلے، ان میں سے صرف ایک میں اسے بمشکل کامیابی ملی اور دو میں سبق سکھا دینے والی شکست ہوئی، تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ مستقبل میں جرمن ٹیم کیا واقعہ سبق سیکھ پاتی ہے۔
دنیا کے مہنگے ترین کھلاڑیوں میں شمار ہونے والی مصر کے فٹ بالر اور نگلش فٹ بال کلب لیور پول کی نمائندگی کرنے والے محمد صلاح بھی مایوس کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ جہاں روس نے دیگر بڑی ٹیموں کو زیر کیا، وہیں محمد صلاح کا جادو بھی روس کے آگے مٹی کی دیوار ثابت ہوا اور مصر 3-1 کی شکست سے دوچار ہوا۔ میسی، رونالڈو، ملر، انیسٹا،پی کے، محمد صلاح، رومیلو لاکاکویا کوئی بھی کھلاڑی انفرادی پرفارمنس کی بدولت اپنی اپنی ٹیموں کو عالمی چیمپئن نہ بنا سکا۔
چھوٹی ٹیموں کے ساتھ اب تک صرف برازیل ہی وہ واحد بڑی ٹیم ہے، جو سوازی لینڈ کے علاوہ تمام میچز میں چھائی رہی۔ برازیل وہ واحد ملک ہے جس نے نہ صرف اب تک کے تمام ورلڈ کپ مقابلوں میں حصہ لیا ہے بلکہ سب سے زیادہ ٹائٹل بھی اسی ملک نے جیتے۔
۔اس ورلڈ کپ کی ایک اور خاص بات ایران اس برس پہلی بار متواتر دوسری مرتبہ عالمی کپ میں شامل ہوا، جب کہ آئس لینڈ اس ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے والا دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ پاناما کی ٹیمیں پہلی بار کوالیفائی کرتے ہوئے حصہ لے رہی ہیں۔ اس دفعہ ورلڈ کپ کی ایک اور خاص بات یہ کہ یہ پہلی بار ہو گا جب فٹ بال ورلڈ کپ کے میچ دو بر اعظموں، یورپ اور ایشیا میں کھیلے جا رہے ہیں۔ روسی سروے کے مطابق ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس ٹورنمنٹ میں کُل 64 میچ کھیلے جائیں گے، جس کیلئے اندازاﹰ دس لاکھ سے زائد غیر ملکی روس کا رخ کر رہے ہیں۔ اعداد و شمار اکھٹا کرنے والے اس ادارے کے مطابق فٹ بال کے اس برس عالمی کپ کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھنے والوں کی تعداد 4.2 بلین سے زیادہ ہے، جو دنیا کی تقریباﹰ نصف آبادی سے زیادہ ہے۔ اس برس عالمی چیمپئین کا تاج سر پر سجانے والی ٹیم کو 3.8 ملین ڈالر کی انعامی رقم دی جائے گی۔ دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کو 2.8 ملین ڈالر کی انعامی رقم کی حقدار قرار پائے گی۔ جب کہ زیادہ سے زیادہ ملکوں اور ٹیموں کو مواقع فراہم کرنے کیلئے ٓائندہ فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کی تعداد 48 کر دی جائے گی
عمبرین سکندر