انتخابات اور نئی ریاستی حکمت عملی
محمد یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
قبضہ گیر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے یا طول دینے کے لیئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں میں ایک مقامی لوگوں کو برائے نام نمائندگی دینا، یعنی کہ الیکشن کا ڈھونگ رچا کر انہیں ایوانوں میں پہنچانا ہے۔ جہاں قبضہ گیر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ مقامی آبادی اس کی ہمنوائی میں کام کرنے کو تیار ہیں۔ اس کے علاوہ اس طریقہ واردات کے ذریعے مقامی آبادی کو باہم دست و گریبان کرنا بھی قبضہ گیر کی پالیسیوں میں شامل ہے۔ جس کا نظارہ ہم پچھلے ستر سالوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ آج اس کی شدت ہر کوچہ و بازار میں دیکھی جاسکتی ہے۔
بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے بعد بلوچ قوم میں بڑی تبدیلی اکیسوی صدی کے اوائل میں دیکھنے کو نظر آیا، جہاں بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد نے پاکستانی الیکشن سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے، عوامی مہم چلائی ۔ جس کے بعد ہر دور میں بلوچ آزادی پسند حلقوں کی جانب سے ایسی کوششیں کی گئیں ۔ اس کے بڑے اثرات ہمیں ۲۰۱۳ء کے پاکستانی الیکشن میں نظر آتے ہیں،جہاں بلوچ اکثریتی علاقوں میں فقط ایک سے دو فیصد کاسٹ ہوئے۔ ان نتائج نے یہ ثابت کردیا کہ بلوچ قوم کی نمائندگی کا حق انہیں حاصل ہے، جو بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔
ریاست چاہے اپنے جتنے امیدوار سامنے لائے،چاہے جتنوں کو بھی وہ ایوانوں میں پہنچائیں لیکن اس حقیقت سے وہ انکار نہیں کرسکتا کہ بزورشمیشر لوگوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیئے ان کے آبائی علاقوں سے کیمپوں کے احاطے میں بزورِ طاقت آباد کرنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے زمرے میں نہیں آتا۔ اور آج ریاست لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کرکے فوجی چھاونیوں کے اطراف میں آباد کررہی ہے۔جس کی مثال مکران، آواران، جھاؤ، ڈیرہ بگٹی، مشکے، کوہلو اور دیگر بلوچ علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک جانب یہ ریاستی جبر عالمِ انسان کے لیئے کسی المیے سے کم نہیں تو دوسری جانب ایوانوں کے نشے مدہوش بلوچ جہدِ آزادی کے مخالفین جن کے ہاتھ شہدا کے خون سے رنگین ہوچکے ہیں، یہ عناصر ریاست کی ہمراہی میں بلوچ قوم کو گمراہی اور غلامی کی دلدل میں جھونکنے کے لیے دن رات ایک کررہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بلوچ قوم پاکستانی قبضے کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا اور نہ ہی انہیں زبردستی مہر لگوانے سے ریاست اور ان نام نہاد عناصر کی خواہش پوری ہوسکتی ہے۔
گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ قوم جس شدت کے ساتھ جہدِ آزادی کو منزل کی جانب لے کے جارہی ہے اس میں آزاادی پسند یقیناً کسی ایسے مہرے کو برداشت نہیں کرپائینگے جو بلوچ قوم کو استحصالی نظام کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ بلوچ قوم نے لہو دیکر دنیا کے قوتوں اور عالمی ادادوں پر واضع کردیا ہے کہ بلوچ قوم قبضہ گیر ریاست کے کسی بھی نظام کاحصہ نہیں ۔ بلکہ بلوچ قوم اپنی آزادی اور قومی بقاء کی جنگ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ستر سالوں سے لڑتے آرہے ہیں اور بلوچ قوم نے قبضہ گیر ریاست اور بین الاقوامی دنیا پر ۲۰۱۳ء کے ریاستی الیکشن میں موقف کو واضح انداز میں پیش کرچکا ہے کہ وہ قبضہ گیریت سے چھٹکارہ پانے کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتا۔
آج۲۰۱۸ء میں ریاست اور اس کے مہرے ایک بار پھر ریاستی قبضہ کو دوام بخشنے کے لیے سرگرم ہیں۔ جس میں لوگوں کو اپنے بیدخل کرکے بندوق کی نوک پر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ اس ریاستی الیکشن میں بھی آج ریاست انہی لوگوں کو نمائندگی دے رہی ہے، جو ان کے تیار کردہ ریاستی ڈیتھ سکواڈ کو حصہ ہیں، جنہوں نے آج تک ہزاروں بلوچ کو شہید اور عقوبت خانوں کی نظر کی ہے۔ اور انہیں ریاست دنیا کے سامنے بلوچ قوم کے نمائندے ثابت کرنے کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔
بلوچ قوم آپنے شہیدوں کے بہتے لہو سے کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا، چاہے شہیدوں کے مردہ ضمیر باپ بھائی یا کوئی نام نہاد رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، غدار سمجھا جائیگا اور ریاستی فوج کی شراکت داری کی سزا کا مستحق ہوگا۔
ظلم و جبر کی یہ داستان اس وقت ختم ہوگی جب بلوچ قوم اپنی منزل پہ پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں۔ لہٰذا یہ ضروری امر ہے کہ بلوچ جہد آزادی کے مسافروں کے ساتھ ساتھ بلوچ عوام بھی ۲۰۱۳ء کی تاریخ دھراتے ہوئے ریاستی غرور کو سپردِ خاک کردیں۔ یہی کامیابی کی کنجی ریاست کے منہ پہ تمانچہ ہوگا جسے تاریخ ہر دور میں یاد رکھے گی۔