امریکی صدر اپنے افغان پالیسی کے منفی نتائج سے مایوس

149

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متعارف نئی افغان پالیسی سے متعلق مایوس کن نتائج آنے کے بعد واشنگٹن حکام افغان پالیسی میں نظر ثانی پر غور کررہے ہیں۔

امریکی حکام کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے گذشتہ برس اگست میں افغان حکمت عملی کے غیر متوقع نتائج پر سخت مایوسی کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکی نئی حکمت عملی کے تحت عسکری مشیروں، تربیت کاروں، اسپشل فورسز کی بڑی تعدادا میں تعیناتی سمیت افغان سیکیورٹی فورسز کے لیے فضائی مدد شامل تھی، اس کے علاوہ طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آمادہ کرنا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں امریکی مداخلت کے مخالف رہے لیکن ان کے مشیران نے انہیں افغانستان میں جاری جنگ میں مزید رکھنے پر راضی کرلیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس 3 ہزار اضافی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کی منظوری دی اس طرح کل امریکی فوجیوں کی تعداد 15 ہزار ہو گئی ہے۔

امریکی حکام اور سابق ذمہ داران اور مشیران نے تصید کی کہ وائٹ ہاؤس نے افغان حکمت عملی پر باقاعدہ کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا لیکن افسران کی جانب سے اگلے چند ماہ میں اعلان کیے جانے کا پورا امکان ہے اور اس ضمن میں تیاریاں جاری ہیں۔

سینئر امریکی افسر نے بتایا کہ ’ہمیں وائٹ ہاؤس کی طرف سے اشارہ ملا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگلے چند مہینوں میں نظر ثانی کے حوالے سے رائے طلب کر سکتے ہیں اور ہم اس کی تیاری کررہے ہیں‘۔

نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نے بذریعہ ای میل بتایا کہا کہ ’ہم اپنی پالیسی یا حکمت عملی کا باقاعدہ جائزہ لیتے ہیں تاکہ امریکی وسائل کو استعمال بہتر انداز میں کیا جا سکے تاہم افغانستان پالیسی سے متعلق کلیدی حکمت عملی میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ برسلز میں نیٹو میں اپنے اتحادیوں اور پارٹنرز سے ملیں گے اور ان سے افغانستان میں یکساں بنیادوں پر فرائض انجام کرنے کا تقاضہ کریں گے۔