امریکہ کے ایک مؤقر روزنامے نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلیٰ امریکی سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
‘نیویارک ٹائمز’ نے اتوار کو شائع کی جانے والی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے دی جانے والی یہ اجازت افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا مظہر ہے۔
اخبار نےکہا ہے کہ امریکی پالیسی میں آنے والی اس تبدیلی کی کئی اعلیٰ امریکی اور افغان حکام نے بھی تصدیق کردی ہے۔
‘نیویارک ٹائمز’ کے مطابق اعلیٰ امریکی سفارت کاروں نے حال ہی میں براہِ راست مذاکرات کی تیاری کے سلسلے میں افغانستان اور پاکستان کے دورے کیے جہاں افغان تنازع کے اہم فریقوں سے اس معاملے پر بات چیت کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق امریکی اور افغان حکام کا اتفاق ہے کہ افغان عمل میں تیزی اور افغانستان سے امریکہ کے انخلا کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں براہِ راست حصہ دار بنے۔
طالبان افغان حکومت کو “غیر ملکی کٹھ پتلی” قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ مذاکرات کے امکان کو مسترد کرتے آئے ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ افغانستان میں لڑائی روکنے اور قیامِ امن کے لیے وہ صرف امریکہ اور اس کے نٹو اتحادیوں سے ہی بات چیت کریں گے۔
‘نیو یارک ٹائمز’ کے مطابق تاحال ان براہِ راست مذاکرات کے لیے کسی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت پر امریکہ کی آمادگی کے باوجود یہ بیل منڈھے نہ چڑھے۔
لیکن، اخبار کے بقول، امریکی حکومت کی 17 سال بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ حکومت افغانستان کی صورتِ حال میں کسی جوہری تبدیلی کی خواہش مند ہے۔
تاحال پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں نے باضابطہ طور پر ‘نیویارک ٹائمز’ کی اس رپورٹ پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔