کیا ذاکر مجید لوٹ آئے گا؟ – توارش بلوچ

620

کیا ذاکر مجید لوٹ آئے گا؟

توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ :اردو کالم 

نوسال پہلے بلوچستان کے ہر علاقے میں ایک آواز گرجتا تھا، شور مچاتا تھا دشمن کو للکارتا تھا، ڈر و خوف نامی شے اُس کے اندر موجود نہیں تھا۔ وہ ایک عاشق تھا، دیوانہ تھا، مجنوں تھا، اپنے زمین کا، اپنے لاچار قوم کا، اپنے سر و سبز گُلزمین کا، اپنے ساحل و سمندر کا۔ اُسے اپنے زمین کے ذرے ذرے سے مہر و محبت تھی اُسے بخوبی علم تھا کہ اس محبت کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ اُسے سب معلوم تھا کہ اس محبت کا انجام وہی ہونے والا ہے، جو مجنوں و لیلیٰ کے ساتھ ہوا، جو شرین و فرہاد کے ساتھ ہوا، جو شے مُرید و ہانی کے ساتھ ہوا۔ وہ دنیا کے اندر موجود ظالموں کی کہانیاں پڑھ چُکا تھا۔ بھگت سنگھ و اُن کے دو ساتھیوں کے ساتھ کیا ہوا سقراط کو کیا سزا ملی، چے گویرا کا کیا انجام ہوا سب کچھ جانتا تھا لیکن وہ کہتا تھا کہ
دنیا میں قتیل اُس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے،بغاوت نہیں کرتا!

ہاں وہ ایک باغی تھا، جس نے بغاوت کی تھی۔ بغاوت اپنے اس فرسودہ نظام سے، بغاوت انگریز سامراج کی دی ہوئی سرداری و نوابی سے، بغاوت ظلم جبر و ناانصافی سے، بغاوت پاکستانی ناجائز قبضہ سے، بغاوت ہر اُس انسان سے جو پاکستانی غلامی کو دوام بخشنے میں کردار ادا کر رہا ہو۔ وہ بس دشمن سے آزادی چاہتا تھا۔ قومی آزادی کی تلاش میں وہ گھر گھر بھٹکتا تھا۔ کہیں خضدار میں تو کہیں شال کے گلیوں میں، کبھی کبھی وہ حیدرآباد(سندھ) جاکر سندھیوں کو بھی دشمن کی جبر کے خلاف اُٹھنے اور تحریک چلانے کی تلقین کرتا۔

سنگت ذاکر مجید ٹنڈو جام حیدرآباد(سندھ)میں ایک تاریخی جلسہ میں سندھیوں سے مخاطب ہوکر اپنے تقریر کے دوران فرماتے ہیں کہ
“پاکستان نہ آپ(سندھیوں) کو تعلیم دے گا نا بلوچوں کو پڑھائے گا کیونکہ دنیا کے اندر جتنے بھی قبضہ گیر گُذرے ہیں، اُنہیں اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ اگر یہ غلام کچھ پڑھیں گے لکھیں گے تو کل کو یہ ہماری خلاف ہو جائیں گے۔ اگر ایک سندھی جہاز چلانا سیکھ جائے گا تو وہ کل کو وہی جہاز میرے خلاف استعمال کر سکے گا، یہ احمقوں کی جنت میں رہنے والی باتیں ہیں کہ خود ہم انقلاب کیلئے لڑ نہیں سکتے ہیں، قربان نہیں ہو سکتے ہیں، اسی لئے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ بھگت سنگھ بہت ہی خوبصورت انداز میں کہتے ہیں کہ جو لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں اُنکے منہ سے آزادی کی بات تک خراب لگتی ہے، ہم لوگ تو خوفزدہ ہیں، ہم لوگوں کو اپنی زندگی عزیز ہے۔ قربان ہونے کا فلسفہ، جہاں شمع کے اوپر پروانہ فنا ہو جاتا ہے، ہم لوگ کیا اپنی دھرتی ماں کو اس طرح چاہتے ہیں کبھی غور کیا ہے؟ آیا ہم لوگوں کو ایسی محبت ہے؟ آیا وہ بلوچستان ہو یا سندھو دیش، آیا سندھو دیش کے اندر رہتے ہوئے آپ لوگوں کو ایسی درد ہے جو درد جی ایم سید کے اندر تھا؟ یا جس طرح شاہ عبدالطیف کے اندر تھا، وہ آپ محسوس کر سکتے ہیں؟

مزید وہ کہتے ہیں کہ “ابھی آپ(سندھیوں) کو اور ہم لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا اُس بغاوت کی راہ پر چلنا ہوگا، آزادی کیلیے لڑنا ہوگا یا تو پھر اسی طرح غلامی کی زندگی بسرکرنا ہوگا، کہتے ہیں کہ جو غلام قومیں ہوتی ہیں وہ اُس رکھیل کی مانند ہوتے ہیں، جو ہررات کسی نئے بندے کے ساتھ سوتی ہے۔ آیا اس بات کو آپ تسلیم کر سکتے ہو کہ تمہاری ماں کے ساتھ کوئی غیر مرد سوئے، کوئی برداشت کر سکتا ہےکہ باضمیر انسان کوئی غیرت مند کر سکتا ہے؟ تو پھر یہ سوچنا ہوگا کہ دھرتی ماں ہے کس نے حق دیا ہے پاکستان کو کہ وہ بلوچوں اور سندھیوں کو غلام رکھے۔”

سنگت ذاکر علم و زانت سے لیس ایک باشعور نوجوان تھا، جس نے غم و رنج دیکھا تھا۔ اپنے باپ کے لاش کو بچپن میں اٹھایا تھا۔ جنہیں قاتلوں نے بلوچ کہہ کر مارا تھا۔ سنگت ذاکر ایک پختہ نظریہ رکھتا تھا، جس کو نفرت تھی غلامی سے، اُس غلامی سے جو زبردستی بلوچ قوم پر ٹھونس دی گئی ہے، اُس غلامی سے جو ہماری زبان دود و ربیدگ روایت کلچر تاریخ کو مسخ کرنا چاہتا ہے، ذاکر کہتا تھا کہ اس غاصب کا مطلب ہے ہمارے زمین میں جہاں سے سونا و چاندی اُگلتا ہو، جہاں ہر طرح کا معدنیات دستیاب ہوں، قابض دشمن اس سرزمین کو نگلنا چاہتا ہے، ساحل و وسائل کو لوٹنا چاہتا ہے۔

لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک دشمن کے خلاف ذاکر مجید جیسے پختہ نظریاتی سنگت کھڑے ہیں، دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا، ذاکر کو بخوبی علم تھا کہ دشمن ایک نہ ایک دن اُنہیں اٹھائیں گے، جیسے اُن سے پہلے کئی دوستوں و بلوچ رہنماؤں کو جبری لاپتہ کیا گیا تھا۔ جس میں کئی دوستوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں تھی۔ جن میں بلوچ قومی راہشون واجہ غلام محمد، شیر محمد و لالا منیر شامل تھے لیکن ذاکر مجید اُن میں نہیں تھا کہ موت کا خوف اُسے پیچھے دھکیل دیتا وہ اپنے اندر خود دشمن کے سامنے ایک بڑا خوف تھا۔ جس سے قابض دشمن خوفزدہ تھا کیونکہ ذاکر جُھکنے و بکنے والوں میں نہیں تھا۔ بلکہ ایک پختہ نظریاتی سنگت تھا دشمن نے پہلے بھی ذاکر کو لاپتہ کیا، اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا دھمکی دی کہ اپنی جدوجہد ترک کریں، بلوچ قومی آجوئی کی بات نہ کریں اپنے سرزمین کی آزادی کا نعرہ نہ لگائیں ورنہ آپ کا انجام بُرا ہوگا۔ تمہیں لاپتہ و قتل کریں گے لیکن زاکر مجید کو دشمن کی یہ دھمکیاں جُھکا نہ سکے بلکہ جب اُنہیں رہا کر دیا گیا تو وہ اور دلیری سے دشمن کے خلاف بولنے لگے بولان کے سرد پہاڑوں سے لیکر تربت کی تپتی دھوپ میں وہ ہر جگہ اپنے قوم کے نوجوانوں کو دشمن کے خلاف کھڑا ہونے کی تلقین کرتا اُنہیں قابضوں کی بربریت کے بارے میں بتاتا۔ جو تربیت اُسے بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے میسر ہوئی تھی، وہ اس تربیت کو اپنے اندر تک محدود نہیں رکھتا تھا بلکہ اس سے بلوچ نوجوانوں کو بھی آراستہ کرتا تھا دشمن کو ذاکر کی سیاسی سرگرمیوں سے خائف ہونے لگا تھا اور وہ مکمل ڈر گیا تھا کہ اگر ذاکر مجید مزید بلوچ نوجوانوں کے پاس رہے، تو وہ نوجوانوں کو باغی بنا ڈالے گا۔

بی ایس او آزاد کے دوسرے کامریڈوں پر بھی اس وقت ریاستی جبر زوروں سے جاری تھا بلکہ ہم ایسا کہہ سکتے ہیں کہ پوری ریاست ایک طلباء تنظیم کو کمزور کرنے پر لگی ہوئی تھی۔ ریاستی سارے ادارے تنظیمی دوستوں کو اُٹھانے و اُن کی مسخ شدہ لاشیں پھیکنے میں مصروف تھے۔ یہ سلسلہ نو سال بعد بھی جاری ہے اُسی دوران یعنی 8 جون 2009 کو بلوچ رہنماء و بی ایس او آزاد کے سابقہ سینئر وائس چیئرمین سنگت ذاکر مجید کو قابض فوج کے اہلکاروں نے دو ساتھیوں سمیت لاپتہ کیا۔ دو دن بعد اُس کے ساتھیوں کو چھوڑ دیا گیا لیکن ذاکر کو آج نو سال ہونے کو ہیں، وہ ابھی تک دشمن کے قید میں زنجیروں سے بندھا ہوا ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن ذاکر کو دشمن شکست نہیں دے سکتا۔ جب بھی زندان میں اگر ذاکر سے یہی سوال پوچھا جائے گا کہ کیا محسوس کر رہے ہو، یہاں پر اب نکل گئی آزادی کا جزبہ ؟ یقیناً دشمن کو زندان میں ذاکر یہی شعر جواب میں سُنائے گا کہ

سچ کہہ کے کسی دور میں پچھتائے نہیں ہم
کردار پہ اپنے کبھی شرمائے نہیں ہم
زندان کے دور بام ہیں دیرینہ شناسا
پہنچے ہیں سر دار تو گھبرائے نہیں ہم
حبیب جالب

ذاکر مجید کی جبری گمشدگی کے خلاف تنظیم نے کافی احتجاجیں کئے مظاہرے کئے اور زاکر مجید کی بڑی بہن فرزانہ مجید نے کوئٹہ ٹو کراچی پھر کراچی ٹو اسلام آباد تک ایک تاریخی لانگ مارچ بھی کی لیکن پاکستانی خفیہ اداروں و پاکستانی فوج نے ذاکر مجید کو نہیں لوٹایا اور ابھی تک اُنہیں زندان میں قید و بند کئے ہوئے ہیں زاکر لوٹ کر آئے گا یا نہیں اس بات کو میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ دشمن سے کسی طرح کا بھی اُمید نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ ہمارہ ایمان ہے کہ زاکر کا کاروان اپنے منزل مقصود تک پہنچے گا.