انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ایمنیسٹی انٹرنیشنل‘ نے پاکستان میں جولائی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل انسانی حقوق کے علمبرداروں، فعال کارکنوں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے دیگر افراد کی پکڑ دھکڑ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے فوری طور پر ایسے اقدام بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں ہونے والی بے جا گرفتاریوں، گمشدگیوں اور پر امن مظاہروں کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان حکام اْن افراد کے خلاف شدید کارروائیاں کر رہے ہیں جو حکومت کی مخالفت کرتے ہیں، چاہے یہ لوگ سڑکوں اور گلیوں میں احتجاج کر رہے ہوں یا ٹیلی ویژن پر حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوں، یا پھر اخباروں اور سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہوں‘‘۔
تنظیم کی جاری کردہ رپورٹ پر مختلف سماجی کارکنوں اور صحافیوں نے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان میں اس وقت صحافتی اداروں اور آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ بالکل درست ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب بلوچستان میں فوجی آپریشن اور جبری گمشدگیاں عروج پر ہیں۔ پاکستانی فورسز کے ہاتھوں کئی افراد حراست کے بعد لاپتہ کردیے گئےہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ نمائندے کے مطابق گزشتہ کچھ دنوں میں کیچ، مشکے، جھاؤ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے درجنوں افراد کو پاکستانی فورسز اٹھا کر لے گئے ہیں۔
بلوچ نیشنل موومنٹ(بی این ایم) کے مطابق گزشتہ تین مہینوں میں 293 افراد کو فورسز نے حراست کے بعد لاپتہ کر دیا ہے۔ جن میں سے 107 افراد مارچ کے مہینے میں اور 115 اپریل میں اور 71 افراد مئی میں لاپتہ ہوئے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان 37 افراد کو بھی رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو پشتون تحفظ موومنٹ کے پر امن احتجاج میں شرکت کرنے پر گرفتاری کے بعد اڈیالہ جیل میں بند ہیں۔
تنظیم نے 6 جون کو کالم نگار گل بخاری کے حراست میں لینے پر بھی تشویش کا اظہارکیا ہے۔