پاکستانی پارلیمنٹ آپشن یا دھوکہ
تحریر : شیہک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
پاکستانی پارلیمانی نظام کے حوالے سے بلوچ قومی تحریک پر اٹھنے والے سوالات میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسے بلوچ قومی تحریک نے ایک آپشن کے طور استعمال کرنے کے بجائے مکمل مسترد کردیا ہے اور اس فیصلے کو جذباتی فیصلہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن حقائق کیا ہیں کہ جن بنیادوں پر بلوچ نیشنلسٹ پاکستانی پارلیمانی نظام کو مسترد کرتے ہیں۔
بلوچ قومی جدوجہد آزادی یا پھر کوئی بھی تحریک جو ایک الگ ریاست کا دعویٰ کرتی ہے اور کالونیلزم کے خلاف برسرپیکار رہتی ہے، تو اس جدوجہد کے جہتیں مختلف ہوتی ہیں لیکن ایک حد کا تعین لازمی ہوتا ہے کیونکہ ایک مخصوص حد تک ہی کوئی تحریک ریاست کے آپشنز کو اس کے خلاف استعمال کرسکتی ہے جبکہ دوسری جانب ریاست از خود penetrationکی غرض سے رسائی فراہم کرتا ہے اور تحریک پر اثر انداز ہونے کے لیئے گیم پلان تیار کرتا ہے، اس لیئے ریاست اس لائن کو ختم کرنا چاہتا ہے، جو نوآبادکار اور دیسی کے درمیان تاریخی حقائق کی بنیاد پر قائم ہے۔
“اسلامی جمہوریہ پاکستان” جس کا قیام کولڈ وار کے دوران ایک بفر سٹیٹ کے طور پر ہوا اور خطے میں سوشلزم کے حوالے سے جدوجہد کو کاونٹر کرنے سمیت سابقہ سوویت یونین کے اثر کو روکنے اور گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیئے ایک خاردار تار کا کردار ادا کرنے کے لیئے اس ریاست کا قیام ہوا اور پچھلے اڑسٹھ سال واضح کرتے ہیں کہ تخلیق کاروں نے اس مصنوعی پیداوار سے کافی مدد حاصل کی لیکن کیا یہ ملک ایک رضاکارانہ کنفیڈریشن بن پایا یا مستقبل میں اس حوالے سے کوئی امید ہے؟
پچھلے اڑسٹھ سالوں میں بلوچ، سندھی پشتون اور اقلیتوں کے ساتھ جو انسانیت سوز رویہ اپنایا گیا ہے اور موجودہ حال میں جس طرح جارحیت و بربریت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، کیا ایسے میں بالادست طبقے کی جانب سے کسی بھی بہتری کی امید لگائی جاسکتی ہے؟
ہم اگر پارلیمنٹ کو بطور آپشن استعمال کرنے کی کوشش بھی کرینگے تو وہ کرنے نہیں دینگے البتہ ہم ان کے ہاتھوں استعمال ہوکر رہ جائینگے۔ جس کی واضح مثال نیشنل پارٹی ہے جو 2002 سے یہ رونا رو رہی تھی کہ ہم جمہوری طور پر تحریک کو سپورٹ کرینگے اور ہمیں موقع ملا تو ہم بلوچ کے دکھوں کا مداوا کرینگے لیکن جب موقع ملا تو شرائط پس پردہ طے شدہ تھے اور نیشنل پارٹی نے کھل کر اینٹی بلوچ کردار ادا کیا اور اس انتہا تک بلوچ تحریک کے خلاف گئے۔ جہاں سے واپسی کا راستہ بھی نہیں۔ دوسری مثال بی این پی مینگل کی ہے، جس کے پریشر گروپس اور 6 نقاط کو مدنظر رکھتے ہوئے عبرتناک نتائج تک پہنچا دیا گیا اور ان کے جیتے ہوئی سیٹیں بھی پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے کھاتے میں ڈال کر ایک تیر سے دو شکار والا کھیل کھیلا گیا، جہاں بلوچ پشتون تضاد کو ابھارا جاسکے لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اب بھی اگر بی این پی مینگل اقتدار میں آنا چاہتی ہے یا پھر آئیگی تو بغیر ملٹری اسٹبلیشمنٹ کے خوشنودی کے ایسا ممکن نہیں اور جہاں تک آثار نمایاں ہیں اور ملٹری نے باپ بنا کر ایک نئی ریسپی والی کچھڑی بنانے کا ارادہ کیا ہے۔
یہاں اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ایک ملیٹرائزڈ ملک ہے، جہاں ملک کے پاس فوج نہیں بلکہ فوج کے پاس ملک ہے اور یہ کسی صورت بھی سیاسی عمل کو برداشت نہیں کرینگے، جب انہوں نے نواز شریف یا پھر بھٹو جیسے جمہوریت کے نام نہاد چیمپین کو نہیں بشخا تو پھر بلوچ کو پارلیمنٹ بطور آپشن کیا خاک استعمال کرنے دینگے۔
یہ ایک واضح امر ہے کہ نیو کولونیل سوسائٹی سے کنفیڈریشن کی امید رکھنا دھوکا دہی کے مترادف ہے کیونکہ یہاں وہ طاقت کے زور پر دبائے رکھنے پر یقین رکھتا ہے۔ اس لیئے بلوچ رہنما نواب خیربخش مری نے ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی فریم ورک سے دور رہتے ہوئے مزاحمتی بیانیہ تشکیل دیا جو ایک متبادل بیانیے کا پیش خیمہ ثابت ہوچکا ہے اور آج سندھی، پشتون نیشنلزم کے ابھار اور انسانی حقوق کی پامالی حوالے سے تیسری قوت اقوام متحدہ کی ثالثی کا ڈیمانڈ بلوچ آزادی پسندوں کے موقف پر مہر ثبت کرتا ہے کہ اس ریاست کے اداروں کو بطور آپشن استعمال کرنے کی خوش فہمی دماغ سے نکالتے ہوئے مزید بہتر متبادل جہتیں قائم کی جائیں۔
حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا جبکہ نقصان بہت ہوگا اور جدوجہد کمزور ہوگا جبکہ اداریں ریاست کے مضبوط ہونگے جب آپ ان کو ایندھن فراہم کرینگے اور اتنے بیوقوف وہ بھی نہیں کہ کچھ ایندھن ہمیں بھی چرانے دینگے۔