میں کیوں ووٹ دوں؟ – عبدالواجد بلوچ

1014

میں کیوں ووٹ دوں؟

تحریر:عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ ظلم کے بادل چٹ جائیں
ہم حق کی خاطر مٹ جائیں
جس دیس کے باسی ہم ٹھرے
جہاں پھول سے بچے مرجھائیں
یہی امر تسلسل رائج ہے
یہاں اذہان پہ پہرے ہٹتے نہیں
یہاں قلم پہ پاؤں ہٹتے نہیں
جہاں بستوں میں کتاب نہ ہو
جب حق کی بات کہی جائے
تب جیل و سلاخیں ہیں منتظر
یہاں عصمت دری ایک کھیل سہی
جسے شوقِ جوانی سمجھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں باغی ہوں اس نظام و آئین کا، جواپنے رعایا کی تحفظ میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ میں باغی ہوں اس آئین کا جس کی تکریم امر لازمی نہیں،اس نظام سے بغاوت اچھی جہاں بھوک وپیاس سے لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہوں، میں باغی ہوں پارلیمان کا جہاں عوام کے نمائندے بکے مال کی طرح نیلام ہوں،جی مجھے نفرت ہے اس رائے دہی کے نظام سے جہاں ووٹ و جمہور کا تقدس پامال ہو، میں کس منہ سے جاؤں اس جگہ جہاں رائے دینے کے لئے مجھے میرا ضمیر سو بار ملامت کرتا ہو، وہ نوجوان کس منہ سے اپنا رائے دے گا، جو ہو تو Phdلیکن ان کے کاغذات ایک چپڑاسی کے پوسٹ کے لیئے جمع ہوں؟ وہ ماں اپنی رائے کا حق کس طرح استعمال کرے، جس کا لال کئی سالوں سے لاپتہ ہو اور وہ ترستا ہو ایک بار اسے سینے سے لگانے کے لئے؟ وہ باپ کس طرح ووٹ دے گا جس کے بوڑھاپے کا عصاء پس زنداں ہو؟ وہ بہن اپنی آنسوؤں کے ساتھ کس طرح اپنا جمہوری رائے استعمال کرے گی، جو شادی کا جوڑا اپنے ہاتھ میں تھامے اپنے لاپتہ بھائی کا منتظر ہو؟ وہ دوشیزہ دلہن کس طرح اس ریاست کے آئین کا حترام کرے گی، جس کی شادی کے سیج سے، اس کے دلہے کو غاصب قوتیں اٹھا کر لے گئے ہوں؟

جب رعایا کے محافظ خود بلٹ پروف گاڑیوں کے ساتھ آکر ووٹ مانگیں، وہ کس طرح اپنے رعایا کا محافظ بنے گا؟ جب آئین کے محافظ از خود کئی بار اس آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوں، جب چاہے اسے مانتے ہوں اور جب چاہے اسے رتی برابر سمجھتے ہوں، تو وہ آئین کس طرح مقدس ٹہرے گی؟ اس بچی کو آپ کس طرح قائل کروگے، جو تپتی دھوپ میں، اس وڈیرے کو پسِ زنداں ڈالنے کے لیئے چیف جسٹس کی گاڑی کے سامنے دوڑ کر لیٹتے ہوئے، کہتی ہے کہ وہ وڈیرہ بھی ووٹ مانگ رہا ہے جو میرے باپ دادا اور بھائی کا قاتل ہے۔ میں کس طرح یہ مان لوں کہ یہی لوگ رائے دہی کے بعد اس نظام کو بدلیں گے؟ اس بوڑھے شخص کو کس طرح یہ یقین دلاؤگے کہ جس سردار کے پاؤں کے نیچے اس کی تذلیل ہورہی ہو اور وہ سردار ووٹ حاصل کرنے کے بعد اس کے حقوق کا تحفظ کرے گا؟ وہ عورت کس طرح ان نمائندوں کو ووٹ دے گا، جن کے ناک کے نیچے غاصب قوتیں حاملہ ہونے کے باوجود اسے اغواء کرتی ہوں۔ اس کے بعد اس کی عصمت دری کرکے اس بچے کا قاتل بھی بن جائیں جو اس عورت کے پیٹ میں سانسیں لے رہا ہوتا ہے؟

عجیب داستان ہے، ہمارے ہاں کہ اپنے مفادات کے عوض جمہور کے جذبات سے کھیل کر یہ ڈرامہ رچا جائے کہ ماضی میں ہم نے اس نظام کا حصہ نا بن کر بڑی غلطی کی تھی، تو جناب اب اس نظام کا حصہ بن کر آپ کیا تیر ماریں گے؟ کیا اس عورت کی عصمت لوٹا پاؤگے جن پر غاصب قوتوں نے حملہ آور بن کر ان کی عصمت کوتار تار کیا؟ کیا اس ماں کے انتظار کا اختتام کروگے جو اپنے لال کے لئے گھر کے دہلیز پر سر رکھ کر اس کا منتظر ہے؟ کیا اس دوشیزے کی ان احساسات کا بدلا چکا پاؤگے جس کی دلہے کو شادی کے وقت اٹھا کر پھر قتل کیا گیا ہو؟ کیا اس نوجوان کی برباد تعلیم اور ڈھلتی عمر کو لوٹا پاؤگے جسے دوران تعلیم پس زنداں کرکے مفلوج بنا دیا گیا ہو؟ اگر ہاں تو میرا ووٹ تمہارا، اگر نہیں تو اس راگ کا الاپنا بند کردو کہ ہم نے ماضی میں الیکشن میں حصہ نا لیکر تاریخی غلطی کی ہے۔ جی ہاں میں حق بہ جانب ہوں اس لئے باغی ہوں، باغی بنوں گا جب ضمیر زندہ ہے. اختتام اس شعر کے ساتھ

“اس دور کے رسم رواجوں سے
ان تختوں سے ان تاجوں سے
جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں
انسانی خون سے پلتے ہیں
جو نفرت کی بنیادیں ہیں
اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں

میں باغی ہوں، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو

وہ جن کے ہونٹ کی جنبش سے
وہ جن کی آنکھ کی لرزش سے
قانون بدلتے رہتے ہیں
اور مجرم پلتے رہتے ہیں
ان چوروں کے سرداروں سے
انصاف کے پہرے داروں سے

میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو

جو عورت کو نچواتے ہیں
بازار کی جنس بناتے ہیں
پھر اس کی عصمت کے غم میں
تحریکیں بھی چلواتے ہیں
ان ظالم اور بدکاروں سے
بازار کے ان معماروں سے

میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو

جو قوم کے غم میں روتے ہیں
اور قوم کی دولت ڈھوتے ہیں
وہ محلوں میں جو رہتے ہیں
اور بات غریب کی کہتے ہیں
ان دھوکے باز لٹیروں سے
سرداروں سے وڈیروں سے

میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو

مذہب کے جو بیوپاری ہیں
وہ سب سے بڑی بیماری ہیں
وہ جن کے سوا سب کافر ہیں
جو دین کا حرفِ آخر ہیں
ان جھوٹے اور مکاروں سے
مذہب کے ٹھیکیداروں سے

میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو

جہاں سانسوں پر تعزیریں ہیں
جہاں بگڑی ہوئی تقدیریں ہیں
ذاتوں کے گورکھ دھندے ہیں
جہاں نفرت کے یہ پھندے ہیں
سوچوں کی ایسی پستی سے
اس ظلم کی گندی بستی سے

میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو

میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے
میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے
میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں
میں موت کی خاطر زندہ ہوں
میرے خون کا سورج چمکے گا
تو بچہ بچہ بولے گا

میں باغی ہوں ، میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو”