اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسانی حقوق میں بلوچ قومی نمائندہ اور مری قبیلے کے سربراہ مہران مری نے بابائے بلوچ نواب خیر بخش مری کے چوتھی برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواب مری بلوچ گلزمین کے سچے فرزندوں میں سے تھے جنہوں نے مادر وطن کا اپنے حصے کا قرض ادا کیا. بابا مری نے ہمارے لئے اور آنے والے نسلوں کے لئے ایک روشن مثال قائم کی کہ کس طرح لالچ اور خوف سے بالاتر ہوکر مخلصی اور دیانت داری سے اپنے وطن کی خدمت کی جاسکتی ہے.
انہوں نے کہا کہ نواب خیر بخش مری نے بلوچ قوم کو قبائلی ،گروہی،مڈل کلاسی، پارلیمانی اور ریاست کے غلام سرداروں اور نوابوں کی موقع پرستانہ سیاست کے مقابلے میں ایک جمہوری، روشن خیال و بلوچ قومی سیاست اور قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کا راستہ دکھایا.نواب مری نے اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کو غلامی سے نفرت ، اس سے لڑنے کا درس، قوم میں شعور و بیداری کی تبلیغ اور بلوچ وطن کی آزادی کی جدوجہد میں گزاری. کیونکہ بابا مری یہ سمجھ گئے تھے کہ یہ جنگ بلوچ قوم کی بقا کی جنگ ہے یہ جنگ ہماری آزادی کی جنگ ہے اور بلوچ قوم کے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی اور راستہ نہیں جس کی پاداش میں انہیں ہر طرح کی اذیتیں پہنچائیں گئیں اور ان پر خوف، لالچ، جیل، منفی پروپیگنڈا سمیت ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمائے لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام رہے اور بابا مری اپنے موقف پہ ڈٹے رہے. انہوں نے قبضہ گیر ریاست کے ساتھ بلوچ قومی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا کیونکہ انہیں یہ پختہ یقین تھا کہ بلوچ بطور قوم ایک دن اپنا منزل (آزادی )ضرور حاصل کرلیں گے ۔
مہران مری نے کہا کہ قبضہ گیر ریاست کے حکمرانوں نے نواب مری کو آزادی کی جدوجہد سے دستبردار اور ان پر دباو بڑھانے کے لئے ان کے آبائی علاقے کوہستان مری اور مری قبیلے کے خلاف بار بار فوجی کشی کی کیونکہ پاکستانی حکمران کو ہستان مری کو ہمیشہ مزاحمت کا گڑھ سمجھتے آئے ہیں جس بنا پر ایوب، بھٹو اور مشرف سے لے کر آنے والے ہر حکمران نے مری علاقوں میں فوج کشی کی. باوجود تباہ کن فوجی آپریشنوں، کشت و خون اور ظلم جبر کے، یہ نواب خیر بخش مری کی سوچ و فکر اور نظریہ تھا کہ جس نے لوگوں کو اس کارواں آزادی سے جوڑے رکھا کیونکہ نواب مری ریاست کے ہر منفی پروپیگنڈے اور دیگر منفی سرگرمیوں کو زائل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے لیکن جونہی قابض ریاست نے نواب مری کو راستے سے ہٹایا تواپنے کاسہ لیسوں اور حواریوں کو لوگوں پر مسلط کردیا جو چند مراعات کی خاطر پنجابی فوج کے سامنے سجدہ ریز ہیں جس کی تازہ مثال ہمیں اس بار تحصیل کوہلو میں ملی جہاں ایک سیٹ کی خاطر کوہستان مری کے ووٹروں سے زیادہ نام نہاد امیدواروں نے الیکشن کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے . جہاں بھائی بھائی سے اور بیٹا باپ سے جی ایچ کیو کو خوش کرنے اور اپنے آپ کو اچھا اور وفادار غلام ثابت کرنے کے لئے سبقت لے جانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں . جب سے یہ لوگ نواب مری کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹکے، پنجابی جر نیلوں نے انہیں چوہے اور پنیر کی دوڑ میں لگا دیا جسطرح چوہوں کو پنیر کا چھوٹا ٹکڑا دکھا کر انہیں اس کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کیا جاتا ہے بلکل اسی طرح کا کھیل پنجابی جرنیلان ذہنی غلاموں اور مراعات یافتہ حواروں کے ساتھ کھیل رہا ہے .جو چیز اسلام آباد فوجی آپریشنوں اور توپوں سے حاصل نہ کرسکی وہ انہوں نے نواب مری کو راستےسے ہٹاکر پیش رفت کی. ا س سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ قومیں مارنے اور مرنے سے ختم نہیں ہوتے بلکہ غلامی ان کا سب کچھ چھین لیتا ہے اور ان کا وجود ختم کردیتا ہے.
مہران مری نے کہا کہ میں نے شروع دن یہ واضح کیا کہ نواب مری کی موت کی ایک بڑی وجہ ریاست پاکستان ہے اگرچہ نواب مری پر فالج کا حملہ ہوا تھا لیکن جان لیوا نہیں تھا ہم نے لاکھ کوشش کی کہ نواب صاحب کو علاج کے لئے کسی دوسرے ملک لے جایا جائے لیکن آخری وقت تک ریاست اور اس کے ہمنواوں نے جان بوجھ کر رکاوٹیں پیدا کیں تاکہ نواب مری جانبر نہ ہوسکے. بلوچوں کا ہر دلعزیز رہنما زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہے تھے تو انہیں علاج کی غرض سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن دوسری طرف پنجابی کا سپاہی سے لیکر چپراسی تک علاج کے لئے بیرون ملک بھیج دیے جاتے ہیں۔
مہران مری نے کہا کہ جسطرح نواب خیربخش مری کو یہ پختہ یقین تھا کہ بلوچ اپنا منزل ضرور پا لیں گے بلکل اسی طرح یہ ہمارا بھی ایمان ہے کہ قوم اپنے غیور فرزندوں کی جہد مسلسل ، شہدا کی قربانیوں اور اپنے رہنما نواب خیربخش مری کے بتائے ہوئے راستے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنے وطن کو اس قبضہ گیر ریاست کی چنگل سے ضرور آزاد کرالیں گے۔