لاپتہ بلوچ اسیران و شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3101دن ہوگئے، اظہار یکجہتی کرنے والوں میں قلات سے بی ایس او آزاد کے وفد نے لاپتہ افراد و شہدا کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بلوچوں پر روزانہ بمباری، گولوں اور توپوں کی بارش کرکے لاکھوں کی تعداد میں بلوچوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنا اس شرمناک منصوبے کا حصہ ہے۔
ماما قدیر نے کہا اسی طرح کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، قلات، مستونگ نوشکی، خضدار، تربت، پنجگور، مشکے اور آواران سمیت بلوچستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر سے نوجوانوں، سیاسی کارکنوں، بچوں اور خواتین کو ہزاروں کی تعداد میں اغواء کرنے جیسا عمل باعث تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ایسا وقت آگیا ہے کہ کچھ کمزور لوگ اپنی شناخت تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور دشمن کے صف میں شامل ہوکر کرائے کے سپاہی بن گئے ہیں یا مخبری کرکے بچے کچے بلوچوں کو ریاست کے سامنے پیش کرنے میں اپنا شرمناک کردار ادا کرکے میر جعفر و میر صادق کے صف میں شامل ہونا پسند کرینگے۔
ماما قدیر نے مزید کہا کہ اسطرح کے مردوں سے بلوچ خواتیں زیادہ مضبوط ہیں، انہوں نے کہا کہ زرینہ مری بلوچ، معصوم بختی بلوچ یا دیگر بلوچ خواتین کی ناموس اور چادر و چار دیواری کی پامالی اور ارباب اختیار کی بند زبانیں اور پھر ایسے میں یہ امید رکھنا کہ بلوچ قوم پاکستان سے محبت کریں اور پاک فوج زندہ باد کے نعرہ لگائیں یا پھر بلوچ مائیں اپنے بچوں کو پاکستان بنے کی لازاوال داستانیں سناکر بڑا کریں تو یہ خام خیالی سے زیادہ اور کچھ نہیں۔