قومی سے گروہی مفادات تک کا سفر اور عوام کی اہمیت – عبدالواجد بلوچ

294

قومی سے گروہی مفادات تک کا سفر اور عوام کی اہمیت

تحریر:عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ڈیکارٹ نے کہتا ہے کہ ”میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں“ ایک بڑا سوال ہے کہ جو سب کی زبان پر ہے کہ آخر بلوچ قومی تحریک آزادی کی جہدمیں یکجہتی کیوں نہیں پنپتی. قومی تنظیمیں یا قومی ادارے کیوں مستحکم نہیں ہو پارہے؟

اس کا جواب بالکل سیدھا سادہ ہے کہ بلوچستان میں ابھی تک قومی حوالے سے ایسا سماج یا ایسے افراد نے جنم نہیں لیا ہے، جو ان پیچیدگیوں پر غور کریں، جیسی سوچ ویسی تنظیمیں،(گو کہ اس ضمن میں بی این ایم ادارتی معیار پر پورا اترنے کی کوشش میں ہے لیکن کمزوریاں اب بھی برقرار ہیں) دوسری جانب ہمارے رہبرانِ انقلاب نے نظریاتی کارکنان سے زیادہ موقع پرست اور پیداگیر پیدا کیئے ہیں. ہم نے قومی حوالے سے قومی مفادات، قومی بقاء اور اجتماعیت پر غور کیا ہی نہیں۔ اجتماعیت سے زیادہ ہم ابھی تک انفرادیت کو فوقیت دے رہے ہیں۔

سقراط نے نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی سماج میں تفرقہ اور نزاع کی اصل وجہ نظریہ انفرادیت ہے۔ ایک فرد کو اہمیت دینا یا ایک فرد کی ذاتی خوشی یا پسند ونا پسندیا ذاتی مفاد سے انسانی سماج کے مسائل حل نہیں ہوسکتے بلکہ اصل حقیقت قومی اجتماعی مفادات،اجتماعی نظریہ اور سماجی انصاف کا حصول ہے۔ ”جس کی سماجی اور انسانی اخلاق اجازت دیتی ہے“ہم اس کی مثال یوں پیش کرسکتے ہیں کہ ایک چور کی ذاتی خوشی، ذاتی مفاد اور ذاتی پسند و ناپسند یہ ہوتی ہے کہ اس کی چوری کا راز نہ کھلے اور وہ چوری کے مال سے مزے اڑاتا رہے۔ جب کہ اس شخص جس کی حلال اور محنت و مزدوری کی کمائی چوری ہوئی ہے کی ذاتی خوشی، ذاتی مفاد اور ذاتی پسند و ناپسند یہ ہے کہ اس کا چوری شدہ مال واپس مل جائے۔ یہاں ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں اپنی کوشش کریں اور دونوں سے جو طاقتور،ذہین، بارسوخ ہو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے۔ تو ہم اس کو کیا کہیں گے؟ کیا ہم اس عمل کو قومی یا اجتماعی مفادات یا اس سماج میں رہے سماجی انصاف کہیں گے؟ تو یقیناً جواب نفی ہے۔ اگر چور اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو قومی سماجی بے انصافی ہوگی اور زیادتی ہوگی اس کا مطلب ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“اگر دوسری طرف وہ شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے، جس کا حلال اور محنت مزدوری سے کمایا ہوا مال چوری ہوا تھا تو ہم کہیں گے یہ انصاف کے عین مطابق ہے۔

تو بات کرنے کا مقصد یہی ہے کہ موجودہ ہماری تحریک آزادی کی پیچیدگیوں، مسائل کی گھمبیرتا، اجتماعیت سے زیادہ گروہی مفادات کا حاوی ہونے کے اصل اسباب یہی ہیں کہ ہمارے رہبرانِ انقلاب نے اپنی خدائی اور شخصی مفادات کو زیادہ اہمیت دی ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ تو یقیناً ان مسائل کا حل فرد کی خوشی پسند و ناپسند یا مفاد میں مضمر نہیں بلکہ ان مسائل کا حل قومی بقاء و اجتماعیت کی مفادات اور مکمل انصاف کے اصول میں مضمر ہے۔ یہی وہ واحد نقطہ ہے کہ جس نے70 سالوں پر محیط اس تحریکِ آزادی بلوچ کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دی ہیں۔ شخصی و گروہی مفادات نے پورے بلوچ قومی تحریک اور بلوچ سماج کی مٹی پلید کرکے رکھ دی ہے۔ جب تک قومی مسائل کو نہ سمجھا جائے، قومی و عوامی مفادات یا بلوچ عوام کی اہمیت رہبرانِ انقلاب کے ذہن میں نہیں ڈالی جائیگی، اس وقت تک ان موجودہ چپقلش، مسائل کی گھمبیرتا،پیچیدگیوں سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

میں ہر وقت اس گہماگہمی اور حیرانگی کے اس عالم میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ہمارے رہبران کا مسئلہ کیا ہے؟(عوام بے چارہ ہر وقت اسی امید پر نئے نئے چہروں پر امید لگائے بیٹھتے ہیں کہ وہ ہمیں اس دلدل سے نکال پائیں گے لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹا بہتا ہے)۔

در اصل ہمارے جو بھی رہبرانِ انقلاب یا خودساختہ لیڈران ہیں، انکے ذہن سے پاکستانی نفسیات ابھی تک نکل پائی ہی نہیں۔ اناء،گروہیت، من و بس من، کی جراثیم کے ہوتے ہوئے پھر بھی ہمارے لیڈران اپنے آپ کو صحت مند تصور کرتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں احساس تک نہیں کہ وہ کتنی خوفناک بیماری میں مبتلا ہیں یہ لوگ اتنے احساس برتری کا شکار ہیں جو سادہ لوح بلوچ عوام کو کیڑے مکوڑوں کا درجہ دیتے ہیں۔ دنیا کے تمام ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ احساس برتری نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ احساس برتری در اصل احساس کمتری کا ایک شکل ہے۔ احساس برتری میں مبتلا لوگ در اصل احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اصل میں مَیں یہی کہتا ہوں کہ یہ تمام رہبران انقلاب گروہی مفادات کے امین بن کر عوامی احساسات اور شہدائے بلوچستان کی خون سے مزاق کررہے ہیں۔ ان کو میں انقلابی رہبر یا ہیرو نہیں بلکہ ولن کہونگا جو ہیرو کا بہروپ دھارے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اصل ہیرو تو عوام ہی ہے۔

اگر ان لیڈران کی طرف سے قومی و عوامی مفادات اہمیت کرگئی شخصی و گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر انہوں نے قومی تحریک کو اولیت کا درجہ دیا تو یقینا عوام،مخلص کارکن نظریاتی فکر رکھنے والے کیڈر، ان کا تہہ دل سے احترام کریں گے وگر نہ عوامی غیض و غضب کسی کو معاف نہیں کریگی۔(سربراہ بننے کے لئے ایک خاندان کافی ہوتا ہے لیکن لیڈر بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا قول و فعل قومی مفادات سے ہم آہنگ ہوں)۔

یہاں میں ایک ضروری بات عرض کرتا چلوں کہ بلوچ عوام کی جانب سے ہر وقت سادگی،مخلصی رہنماہان کی حددرجہ عزت تھی اسی وجہ سے ان رہنماہان خواہ وہ جو بھی ہوں نواب،نواب زادگان یا عام افراد ہر کسی نے یہی کوشش کی تھی کہ اندرون خانہ اپنا اختیار استعمال کرکے ان کو عوام کا نام دینا سب سے زیادہ تھا۔اب جب کہ حقیقی معنوں میں چند قوتوں نے عوامی اہمیت،ان کی بالادستی اور عوامی افادیت کو اجاگر کرنا شروع کیا تو ان حضرات نے بجائے قومی امنگوں کے مطابق ہم آہنگ ہوکر ساتھ چلنے کے الٹا سوشل میڈیا میں ایک بار پھر غلاظت بھری ذہنیت سے لیس ہوکر میدان میں اترے ہیں (اپنی حاکمیت،اپنی جمعداری،اپنی تسلط کو قائم کرنے کے لئے یہ لوگ بھول گئے کہ قول و فعل کی تضاد کے ساتھ آگے نہیں بڑھا جاسکتا بلکہ یکجہتی و عمل کو پھیلا کر ہی جدوجہد کی جاسکتی ہے)۔

اداروں کی تباہی، ان کی ساکھ کو برباد کرنا،آپس میں ان کو ٹکرانے سے قطع نظر آج بھی یہ لوگ اپنے مفادات، شخصی و گروہی سیاست پر کاربند ہیں۔ لیکن میں ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب بس، عوام کے اندر،عام افراد کے اندر ایک جذبہ بیدار ہوچکا ہے جسے غم و غصہ کہہ لیجئے یا طیش و غضبناکی اور یہ جذبہ ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑنے کو تیار ہے، کیونکہ جتنی طاقت سے اس جذبے کو دبا دیا جاتا ہے، اتنی ہی طاقت سےیہ ابھرتا ہے۔

استحصالی لوگو! تمہیں اس کی گہرائیوں میں اترنا چاہیئے، تم اندھیرے میں چند قدم آگے بڑھوگے تو تمہیں اس عوام کی اہمیت کا احساس ہوگا۔ لوگ تمہارے مقدر کی بات کررہے ہیں تم سمجھتے تھے کہ ان کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں؟ تمہاری مرضی اور اجازت کے بغیر وہ سوچ نہیں سکتے کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے؟

اب تھوڑا احساس کیجئے، اس خاموش عوام کی اہمیت کا کہ وہ انقلاب قریب آن پہنچا ہے جو صرف قومی بقاء،خالص قومی آزادی،عوامی حکومت کا امین ہو اور شخصی و گروہی مفادات کے لیئے زہر قاتل۔(اپنے رکھے چند مفاد پرست،موقع پرست پیداگیروں کی خوش اخلاقی اور ان کی منافقت سے آس لگائے بیٹھنا کہ سب ٹھیک ہے یہ بھی خام خیالی اور دھوکہ دہی ہوگا آپ
لوگوں کے لیئے).

صاحبِ بصیرت لیڈر اکثر اپنی جماعت میں جدت پیدا کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ لیڈر کی بصیرت نہایت اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ اسی کی بدولت لوگوں کو جدوجہد کے لیے کوئی مقصد حاصل ہوتا ہے۔ ایک ایسا مقصد جس کا تعلق حال سے نہیں مستقبل سے ہوتا ہے۔ لیڈر شپ کا ایک اور وژن اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کے ساتھ مل کر عمل میں تیزی لانا ہوتا ہے نا کہ خودساختہ تعریفی کلمات کے بند باندھنے سے لیڈر کی اہمیت میں اضافہ ہوسکتا ہے، جتنی جلدی اس خام خیالی سے ہم نکلیں گے اتنا فائدہ قومی تحریک کو ہوگا۔ انقلابی عمل اور مسلسل حرکت میں رہنا ہی قومی آزادی کے شاہراہ پر مضبوطی سے چلنے کا گُر سکھاتی ہے، نا کہ اپنے خول میں رہ کر آنکھیں موند لینے سے اور سوشل میڈیا میں بلاجواز کی چے مگوئیوں سے انقلابی عمل ترقی پذیر بنتی ہے.امید کرتا ہوں وقت کے اس تیز دھار لمحوں کے ساتھ ہم ہوش کے ناخن لے کر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔