فلسفہ حمید بلوچ اور بلوچ قومی تحریک
تحریر : مرید بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قوم ہر دور میں مظلوم اقوام کے ساتھ ہم آواز و ہمگام بن کر ساتھ کھڑا رہا ہے اور محکوم و مظلوم قوموں کے درد کو سمجھتے ہوئے ہر ظلم، قضہ گیریت و سامراجیت کے خلاف آواز اٹھایا ہواہے، چاہے اسکے لئے کتنی بڑی ہی قیمت کیوں نا ادا کرنا پڑاہو۔ 1839 میں بھی بلوچ اگر برطانیہ جیسی طاقت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تو اسکی وجہ بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم و نا انصافی نہیں بلکہ پشتون قوم کی حفاظت کیلئے خان محراب خان نے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے مزاحمت کا فیصلہ کیا اور جام شہادت نوش کی۔ اسکے رد عمل میں بلوچ سر زمین صدیوں تک برطانیہ کے نفرت کا شکار رہا۔
جون کا مہینہ بلوچ تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس مہنے میں بلوچ بزرگ رہنما نواب خیر بخش مری جنکے نظریات سے دنیا متعارف ہے جسمانی طور پرہم سے جدا ہوئے اور دوسرے شہید حمید بلوچ جنہوں نے خان محراب خان کی تاریخ دوبارہ رقم کی جب ایک بار پھر ایک سامراج مظلوم تحریک کو کچلنے کی غرض سے بلوچ سر زمین اور بلوچ قوم کا سہارہ لے رہی تھی۔
شہید حمید بلوچ وہ ہیرو ہیں جنہوں نے بلوچ قومی تحریک کا دنیا کے محکوم و مظلوم قوموں سے رشتہ وابستہ کروایا اور ثابت کروایا کہ بلوچ قومی تحریک نظریاتی بنیادوں پرقائم ہے اور دنیا کے باقی مظلوم قوموں کے دکھ درد کو سمجھتی ہے کیونکہ وہ خود ایک مظلوم ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں ریاست پاکستان اور سلطنت آف عمان کے درمیان ایک معاہدے کی رو سے بے روزگار بلوچوں کو مسقط عممان آرمی میں بھرتی کاعمل شروع کیا گیا، جسکا مقصد اس وقت عمان میں مزاحمت کرنے والی ظفاری تحریک کا خاتمہ تھا۔ چونکہ شہید حمید بلوچ دنیا کے حالات اور مظلوم تحریکوں کے بارے میں علم رکھتے تھے سمجھ چکے تھے کہ اس بھرتی کا مقصد بلوچ کو روزگار فراہم کرنا نہیں بلکہ مظلوم کو استعمال کرتے ہوئے مظلوم کا خاتمہ تھا۔ مقبوضہ بلوچستان کے علاقہ مکران میں جب بھرتیوں کا آغاز ہوا اور بیروزگار بلوچ سامراج کے شیطان عزائم سے بے خبر روزگار کے لئے ان کیمپوں کا رخ کر رہے تھے، جہاں انہیں قاتل بنایا جا رہا تھا تو اس وقت شہید حمید بلوچ نے نا صرف بذات خودعام بلوچوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جس طرح وہ خود محکوم و مظلوم قوم ہیں، بلکل اسی طرح انہیں بھی دوسرے مظلوموں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ اس عمل کے خلاف ساتھیوں سمیت سراپا احتجاج ہوئے۔ انکے اس احتجاج اور مزاحمت کے رد عمل میں انہیں 3 اگست1979 کو نا معلوم عمانی آفیسر پر فائرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور ان پر بھرتی خلاف اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے زور دیا گیا۔ مگر شہید حمید بلوچ، خان محراب خان کی قوم کے فرزند تھے جو زندگی تو قربان کر سکتے تھے، مگر وطن فروشی کرکے مادر وطن کے ساتھ دغا نہیں کر سکتے تھے۔۱ سال چھ مہینے جیل میں رہنے کے بعد انہیں نا معلوم قتل کے الزام میں ۱۱ جون کو پھانسی دی گئی۔
شہید حمید بلوچ نے پھانسی سے چند گھنٹے قبل ایک پیغام بلوچ قوم کے نام لکھاتھا جسے شہید حمید کی وصیت کہا جاتا ہے جس کے کچھ الفاظ یوں ہیں کہ
میں نے ایک بہت بڑے کو شکست دینے کی ٹھانی ہے میں اس میں ناکام نہیں ہوا ہوں میرے بھائی ،دوست عزیز اور میرے قوم کے بچے میرے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ میں اپنے طالب علم ساتھیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم آزادی کی نعمت سے بارآور ہونا چاہتے ہو تو قربای دینے سے پسِ پشت نہ رہو لیکن قربانی کے ساتھ آپس میں اتحاد و یکجہتی اور متحدہ عمل نہایت ضروری ہے، آپس کے اختلافات سے صرف دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور یہ یاد رکھو دشمن بڑا مکار ہے لہذا اگر بی ایس او واقعی بلوچ قوم کی اس کے منزل تک پہنچنے میں رہنمائی کریگی تو انکے لئے آپ میں اتحاد ضروری ہے اتحاد کے بغیر ہم منتشر ہونگے اور ہماری منزل مزید دور ہوگی۔ بلوچستان کی سرزمین کو سبزہ زار بنانے کیلئے خون کی آبیاری کی ضرورت ہے اور خون ہی سے سرمگیں بولان سر سبز ہوتا ہے۔
شہید حمید بلوچ نے اپنی مختصر زندگی بلوچ قوم اور آجوئی کے نام وقف کرتے ہوئے نا صرف تاریخ میں نام لکھوا دیا بلکہ دنیا کے نام بھی پیغام بھجوایا کہ بلوچ قومی تحریک صرف بلوچ قومی بقا کی تحریک نہیں بلکہ یہ تحریک امن عالم کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔
آج اسی فلسفہ حمید پر چلتے ہوئے قومی تحریک کے کارکن دنیا کے تمام مظلوم تحاریک کی سیاسی واخلاقی کمک کرتے ہیں جسکی مثال سنگت ذاکر مجید کا وہ تاریخی خطاب ہے جو انہوں سندھ کی دھرتی پر سندھیوں کو بیدار کرانے کی خاطر کیااور اس خطاب نے سندھودیش کے نوجوانوں کے دل میں دبا قوم پرستی کا لاوا پھاڑ دیا اور ریاست اس قدر بھوکلاہٹ کا شکار ہو گیا کہ بلوچ فرزند ذاکر جان کو زندانوں میں قید کردیا۔ جن کی اک دیدار کو یہ پوری قوم اب تک ترس رہی ہے۔
آج بلوچ قومی تحریک فلسفہ حمید پر کاربند ہے کہ چاہے کرد تحریک ہو، سندودیش تحریک ہو،ہزارہ قوم کا مثلہ ہو یا افغان سر زمین پر ہونے والے مسائل ہوں یا موجودہ نومولود پشتون قوم پرستی کی تحریک بلوچ سیاسی کارکنان نے ہر قدم انکی حمایت کی ہے اور انہیں راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔لہٰذا اب دنیا کو بھی بلوچ تحریک کے بارے میں سوچ کر بلوچ قومی بقا کے بارے میں سوچنا چاہئے اور اس ریاست جس کی دہشتگردی کی جھڑیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں کو روکنے کے لئے بلوچ قومی تحریک کا حمایت کرنا ہوگا، ورنہ مستقبل میں اقوام عالم کے پاس سوائے پشیمانی کچھ نا ہوگا۔