علم و عمل، جہد مسلسل کا پیکر پروفیسر شہید صباء دشتیاری
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
یکم جون 2011 کو ریاست نے پروفیسر صبا دشتیاری کو قتل نہیں کیا تھا بلکہ ایک روشن خیال دماغ، ایک پختہ نظریہ اور ایک انقلابی سوچ کا قتل کیا گیا تھا۔ ریاست نے اِس سوچ سے صبا دشتیاری کے جسم میں گولیاں پیوست کیا ہوگا اور وہ یہ سمجھتے ہونگے کہ اس طرح گولیوں سے خیالات اور نظریات کو بھون کر بلوچ تحریک آزادی کو بانجھ کیا جائے جاسکتا ہے لیکن اُن کا یہ سوچ غلط ثابت ہوا ریاست نے اپنے آلہ کاروں کے ذریعے علم و عمل کے سمندر کی لہروں کو خاموش کرنا چاہا لیکن سمندر کے لہر کھبی خاموش نہیں ہوتے، وہ مسلسل بلکہ ہمشہ تغیراتی عمل میں رہتے ہیں۔ اس طرح ایک جسم کو گولیوں سے بھون کر خاموش کیا جاسکتا ہے، موت دیا جاسکتا ہے لیکن موت صرف ایک جسم کو آ سکتی ہے لیکن سوچ و نظریے کو کھبی بھی نہ گولیوں سے ختم کیا جاسکتا ہے، نہ ہی موت دیا جاسکتا ہے۔ آج شہید پروفیسر صباء دشتیاری جسمانی طور پر بلوچ تحریک آزادی سے ضرور الگ ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے درمیان وجود نہیں رکھتے لیکن اُنکا نظریہ، سوچ اور فکر آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ آج بھی پروفیسر صباء دشتیاری اپنے عظیم خیالات اور نظریات کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کی سیاسی و نظریاتی تربیت کررہا ہے۔
عطا شاد نے کیا خوب کہا ہے
“کوہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی
رات سو جائے تو بہتا ہوا چشمہ بولے”
اُن کوہساروں کی مانند پروفیسر صبا دشتیاری نے بھی خاموشی کو اپنا رسم بننے نہیں دیا، انہوں نے اپنے کتابوں، تحریروں اور ادبی خدمات کے ذریعے آنے والے نسلوں کے لیئے بہت کچھ بطور قومی اثاثہ چھوڑا ہے۔ اُن کی تقریریں ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔ شہید بالاچ مری کے برسی کے موقع پر اُستاد صبا دشتیاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: “ریاست میں یہ طاقت نہیں کہ وہ بلوچ آزادی کی جنگ کو ختم کرسکے، بلوچ پر جنگ مسلط نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ جنگ بلوچ نے شروع کی ہے، اس جنگ کو منطقی انجام تک بلوچ پہنچادینگے، لہو جو سڑک پر بہتا ہے، وہ اپنا حساب مانگتا ہے۔ یہ حساب دہشت گرد پنجابی ریاست کو دینا ہے۔ بلوچ آزاد ہوکر رہے گا، بلوچوں کی آزادی کو کوئی نہیں روک سکتا، آج بلوچ نوجوان عظیم اُستاد کے نظریات پر کاربند ہوکر بلوچ وطن کی آزادی کے لیئے جدوجہد کررہے ہیں۔ دشمن کا ہر محاذ پر مقابلہ کررہے ہیں۔”
صبا دشتیاری ایک سوچ اور ایک فکر تھا، اُنہوں نے نوجوانوں کو نظریات کے ہتھیاروں سے مسلح کرنے، اُنکی ذہنی و فکری تربیت کا بِھیڑا اپنے کندھوں پر اُٹھایا تھا، وہ ایک باعمل انسان تھا اور عمل پر یقین رکھتا تھا، اس لئے اُنہوں نے کھبی مصلحت سے کام نہیں لیا، کھبی اپنے قومی ذمہ داریوں اور قومی اہداف سے راہ فراریت اختیار نہیں کی، بلکہ بلوچ قومی تحریک میں اپنا عملی حصہ ڈالنے کے لیئے وہ پیش پیش تھے، ریاستی ظلم و جبر کے خلاف لڑتے رہے۔ لاپتہ بلوچ کارکنوں کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے خلاف اُنہوں نے بھر پور آواز اُٹھایا۔ ریاست کی سفاکیت کے خلاف بلوچ نوجوانوں اور قوم کو متحد و منظم کرنے کے لیئے بھر پور انداز سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، وہ ایک ادیب تھا، اُنہوں نے بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیئے بے شمار قربانیاں دیئے، وہ ایک مفکر، ایک فلسفی تھا جس نے نوجوانوں کو سوچنے کی صلاحیت دی۔
سقراط کو زہر اس لئے نہیں دیا گیا تھا کہ وہ سوچتا تھا بلکہ اُس کو زہر اس لئے دیا گیا کہ وہ سوچنا سکھاتا اور پروفیسر صبا دشتیاری کو اس لیئے شہید کیا گیا کہ وہ بھی نوجوانوں کو سوچنے کی ترغیب دیتا کہ ہم غلام ہیں اور یہ غلامی قدرتی نہیں بلکہ پاکستان کی مسلط کردہ ہے، پاکستان نے بزور طاقت ہمارے سرزمین پر قبضہ کیا ہے اور اس سرزمین کے ہم مالک ہیں۔ ہم اس سرزمین کو ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ ہمارا یہ اولین فرض بنتا ہے کہ اپنے سرزمین کو غاصبوں، لٹیروں اور قابضوں سے آزاد کرائیں اور آزادی نعروں اور تقریروں سے ملنے والا نہیں ہے، آزادی کے لیئے ہمیں سربکف ہوکر بلوچ سرمچاروں کا ہمقدم بننا ہوگا۔
پروفیسر صباء دشتیاری، فرانز فینن کی طرح سیاسی فلسفے میں عملیات کا علمبردار تھا اور وہ بھی فرانز فینن کی طرح اس بات کا قائل تھا کہ نوآبادیاتی نظام تشدد کے ذریعے قائم ہوا اور تشدد کے ذریعے ہی قائم رہا اُس کو ختم بھی جوابی تشدد کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ اس لیئے وہ جدوجہد کے دوسرے تمام ذرائع پر مسلح جدوجہد کو ذیادہ ترجیح دیتے اور وہ ہر محاذ پر بلوچ سرمچاروں کی سیاسی و اخلاقی حمایت کرتے۔ قابض استعمار و اُن کے گماشتوں کو پروفیسر قندیل صبا دشتیاری بلوچ کے خیالات سے خوف محسوس ہوتی، ان کے خیالات اور نظریات قابض ریاست کے سینے کو چیرتے، بندوق کی گولی کی طرح اُن کے سینوں میں پیوست ہوجاتے، اس لیئے ریاستی کاسہ لیسوں نے پروفیسر صبا دشتیاری کے بہیمانہ قتل کو اپنی عافیت سمجھتے تھے لیکن یہ اُنکی بھول تھی کہ علم، سوچ، فکر، اور نظریے کو موت سے شکست دیاُ جاسکتا ہے۔ بلوچ سیاسی و مسلح جدوجہد تمام تر ریاستی مظالم و جبر کے باوجود منظم انداز سے آگے بڑھ رہی ہے۔ جو ریاست کے شکست اور شہدا کی سوچ و فکر کی کامیابی کی عکاسی کرتا ہے۔
آئیے آج یکم جون کو اس عظیم سیاسی و فکری اُستاد پروفیسر صبا دشتیاری کے ساتویں برسی کے موقع پر اپنے تمام ذاتی و گروہی اختلافات کو ختم کرکے یہ عہد کریں کہ ہم اُن کے فکر و فلسفہ پر کاربند رہ کر بلوچ وطن کے آزادی کے لیئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اپنے قومی مقاصد کے سامنے کسی قسم کی مصالحت، خود غرضی، نمود و نمائش اور اپنے کمزوریوں کو آڑے آنے نہیں دینگے۔ شہید نے جس عظیم مقصد کے لیئے اپنی جانیں قربان کیئے اُن کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔ شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اُنکے تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں اور اُنکے مقصد کو یایہ تکمیل تک پہنچائیں۔