ظلم پھر ظلم ہے – حکیم واڈیلہ

767

ظلم پھر ظلم ہے

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سماج میں عورت کو جو مقام حاصل ہے اُسے سمجھنا بلوچوں کے دشمن پنجابی سامراج اور اسکی فوج کے بس کی بات نہیں کیونکہ جہاں عورت کو صرف گندی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہو، جہاںعورت پر ہمیشہ شک کیا جاتا ہو، جہاں عورت کو مرد سے کمتر سمجھا جاتا ہو، جہاں عورت بے وقوف اور بدکردار کے نام سے جانی جاتی ہو، جہاں عورت کا کام صرف بچے پیدا کرنا ہو اور مرد کی خواہشات کو پورا کرنا ہو، جہاں عورت چاہے کتنی ہی پڑھی لکھی کیوں نہ ہو، اسے مرد کا غلام بن کر رہنا پڑے۔ ایسے معاشرے میں پیدا ہونے والے پنجابی آرمی کے سپاہی جو بلوچ تاریخ، بلوچ سماج، بلوچ روایات اور بلوچی غیرت سے دور تک کوئی تعلق نہ رکھتے ہو، انکے لیئے بلوچ عورتوں کو اغواء کرنا انہیں ایف سی کیمپ میں منتقل کرنا اور بعد ازاں انکی عصمت دری کرنا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ پنجابی فوجی ایسی انسانیت کو شرمسار کردینے والی حرکتیں بنگلہ دیش میں لاکھوں عورتوں کے ساتھ کرچکا ہے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو مذہبی لبادہ پہنا کر تمام بنگالیوں کو ہندو (کافر) قرار دینے کے بعد مولویوں نے پاکستانی فوج کو یہ حق دیا تھا کے انکی عورتوں کو مال غنیمت کے طور پر پاکستانی فوجی اور انکے لوکل ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ اپنی حوس کا نشانہ بنائیں کیونکہ یہ جنگ میں ہاتھ لگنے والی باندھی (لونڈی) ہیں اور یہ تمہارے غلام ہیں، تم ان کے ساتھ جیسا چاہو سلوک کرسکتے ہو۔ یہ اعلانات فوج کی پشت پناہی کرنے والے مولویوں نے مسجدوں سے کرکے پاکستانی فوج کے اس انتہائی غلیظ عمل کو مذہب کا سہارہ لیکر صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی تھی جس کا شکار قریبا” ۳ لاکھ بنگلہ دیشی عورتیں بنی تھیں اور یہ نا رکنے والا سلسلہ بنگلہ دیش میں پاکستان کیلئے تباہی کا سامان بنا جہاں پاکستانی فوج کو بعد میں سرجھکاکر بنگلہ دیش کو ایک علیحدہ آزاد ملک تسلیم کرنا پڑا۔

جیسا کہ ساحر لدھیانوی کہتے ہیں

“ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا”

بلوچ سماج میں جہاں عورت کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے، جہاں عورت مرد کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر ایک میدان میں محوسفر ہوتی ہے۔ جنگ کا میدان ہو یا عام زندگی بلوچ عورتوں کا کردار ہمیشہ ہی بلوچ سماج میں کافی معتبر اور قابل احترام رہا ہے۔ جس کی مثالیں بلوچ لوک گیتوں میں ملتی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج بانڑی کی سرزمین پر بلوچ بہنیں اس درندگی کا شکار ہیں کہ انہیں عصمت دری کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہیں دشمن کے فوجی کیمپوں میں جنسی غلام بنا کر رکھا جارہا ہے۔ اور یہ تمام ظلم و جبر اس لیئے کیئے جارہے ہیں تاکہ بلوچ آزادی پسندوں کو ڈرایا دھمکایا جاسکے اور انہیں اپنے مقصد سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جا سکے۔ سب سے بڑھ کر بلوچستان میں ہونے والے موجودہ الیکشن کو کامیاب دکھانے کیلئے مختلف علاقوں سے آبادیوں کو ایف سی اور آرمی کیمپوں کے قریب منتقل کیاجارہاہے۔ جہاں سے لوگوں کو الیکشن کے دن ووٹ دینے کیلئے مجبور کیا جاسکے۔

کیا وہ ووٹ مانگنے والے بلوچ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا سامنا کرسکیں گے، جنکی لالچ اور خود غرضی کا قیمت بلوچ عورتیں چکا رہی ہیں؟ یقیناً بلوچ تاریخ، بلوچ سیاسی کارکن اور بلوچ سرمچار دشمن فوج اور اسکے حواریوں کو اس گھناؤنے حرکت پر بھرپور جواب دینگے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص صرف چند ووٹوں کی خاطر بلوچ عورتوں کی آبرووں کو پاؤں تلے روند سکتا ہے، تو اس جیسے قومی مجرم کیلئے بلوچ سماج میں کسی قسم کی کوئی معافی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔